ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
جب ملاقات کیلئے حاضر ہوتا، تو اپنے مخصوص انداز میں ’’صاحب حق صاحب پخیر راغلے ‘‘ سے خوش آمدید کہتے۔ گھربار اور خصوصاً حضرت والدصاحب ؒ کے بارے میں ضرور دریافت کرتے ۔ رخصتی کے وقت حضرت والدؒ سے دعاؤوں کی درخواست کی امانت سپرد کرتے۔ وفات سے چند ماہ قبل جہانگیرہ میں ختم نبوت کا نفرنس تھی، جس میں آپ او ر حضرت مولانا عزیزالرحمان ہزاروی مدظلہ مہمانان خصوصی تھے ۔ بندہ فقیر کا بیان بعد از عصر تامغرب تھا، آپ حضرات مغرب کے بعد جلوہ افروزہوئے۔ حضرت ہزاروی مدظلہ سے پہلے استاد مکرم کا بیان تھا ۔ استاد مکرم حضرت فانیؒ نے اپنے بیان میں ختم نبوت تحریک کی تاریخ اور اکابرین کی قربانیوں پر ایسے بلیغ اور فصیح انداز میں مختصر وقت کے اندر اتنی مفصل روشنی ڈالی، جیسا کہ کوئی کسی واقعے کا آنکھوں دیکھا حال بیان کررہا ہو۔ او رایسا محسوس ہورہا تھا کہ سامعین ذہنی طور پر آپ کے ساتھ چل دوڑرہے ہیں۔ آپ کا بیان مختصر مگر جامع اور پرمغز تھا ۔ حضرت الاستاد کا سٹیج پر جلوہ افروز ہونا اور پھر سامعین کو اپنے سحر انگیز بیان سے نوازنا اب بھی ذہن میں تازہ ہے۔ اور کیوں نہ ہو،کہ باکردار لوگ موت سے نہیں مرتے۔ ان کا کردار ان کی خدمات اور ان کے کارناموں ہمیشہ انہیں زندہ رکھتے ہیں ؎ ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق ثبت است برجریدۂ عالم دوامِ ما آ پ کی کس کس ادا کو یاد کروں؟ بندہ فقیر تو کوئی لکھاری بھی نہیں ہے، اور پھر حضرت الاستاد جیسی ہمہ جہت اور گوناگوں صفات کی حامل شخصیت پر کچھ لکھنا بھی ہر کسی کا کام نہیں ہے۔ آپ بیک وقت ایک عالم ، مدرس ، شاعر ،ادیب ،ا کابر شناس اور ان گنت خوبیوں کے مالک تھے ۔ اخلاق وعادات میں نمونۂ اسلاف تھے ۔تواضع ، ملنساری ، سادگی ، بے تکلفی ، مہمان نوازی اور قدردانی آپ کی شخصیت کے نمایاں پہلو تھے ۔ دیہاتی ماحول سے پھلے پھولے تھے ،لیکن شہری زندگی کے رموزسے بھی شناسا تھے۔ ریاء اور نمود سے کوسو دور تھے، بلکہ اسکے خلاف جہاد کرتے ’’ازغی دتمنا‘‘کے پشتو شعری مجموعہ کے سرورق پر یہ شعر یقینا ان کی ریاء سے پاک زندگی کی ترجمانی کرتا ہے ؎ اے زاھدھ د ریا تسبے د پریگدھ دیار ذکر زھٔ دَ اوخلکوپہ تسبوکڑم ترجمہ : اے زاہد! ریا کی تسبیح چھوڑ دو، کہ میں اپنے محبوب کا ذکر آنسوؤں کے قطروں سے کرتا ہوں۔ حضرت الاستاد حافظ قرآن بھی تھے ، جب میں ان کی شاعری اپنی طفلانہ نظر سے دیکھتا ہوں تو حافظ شیرازی کی طرح عشق مجازی کے پردوں میں عشق حقیقی کا تار چھیڑتے ہیں ، اس لئے تو اپنی کتاب ’’ازغی دتمنا ‘‘ کا انتساب کچھ اس طرح کیا ہے ’’تڑون د مینے دسپسلی جذباتواوروحانی احساساتوپہ نوم‘‘ ’’ انتساب! محبت کے پاکیزہ جذبات اور احساسات کے نام ‘‘ آپ کے والد مکرم حضرت مولانا عبدالحلیم ؒ اپنے وقت کے جید عالم ، محقق، متکلم العصر ،ترجمان حدیث