ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
دی تھی یہ کہ تم ’’چمچہ گیری‘‘ چھوڑ دو تو تمہیں کچھ نہ کہیں گے ۔ اپنے چمچہ ہونے کی الزامات وغیرہ کی باتیں جب حضرت شیخ الحدیث مولانا عبدالحق ؒ کے سامنے بیان کی تو آپ نے فرمایا بچے جب اساتذہ کی خدمت اور احترام میں ، درسگاہ اور کتابوںکے آداب ملحوظ خاطر رکھنے ، مطالعہ تکرار درس کے نتیجے میں جن طلبہ پر چمچہ ہونے الزام لگتا ہے تو یہی سب سے بڑی کامیابی ہوتی ہے چمچہ ہونا تو فرمانبرداری اور تابعداری کا سرٹیفیکیٹ ہوتا ہے حسد کرنے والوں سے برداشت نہیں ہوتا تو اعزاری کلمات کے بجائے ’’چمچہ جیسے الفاظ سے اپنی پکارتے ہیں دارالعلوم دیو بند میں زمانہ طالبعلمی میں حضرت مولانا حسین احمد مدنی کے ساتھ نہایت احترام کے نتیجے میں میرے لئے بھی بعض طلبہ نے چمچے ہونے کے الفاظ استعمال کئے تھے ۔ حضرت مولانا صاحب دورہ حدیث سے فراغت کے بعد مجھے دارالعلوم میں استاد رکھنا چاہتے تھے ایک ماہ تک امتحان کے بعد رکوائے رکھا تھا لیکن بحیثیت استاد میری تقرری کا اجازت نامہ مجھے نہ مل سکا پتہ نہیں کیوں؟ دورہ حدیث کے سال جنگ اور نوائے وقت میں دارالعلوم حقانیہ کے حوالے سے میرے کالم چلنا شروع ہوئے تھے کالم ہم حضرت شیخ الحدیث ؒ کو سنایا کرتے تھے وہ خوش ہوتے تھے اور میرے لئے دعائیں فرماتے تھے ۔ در حقیقت آج کے دور میں جب میں نفس امارہ اور نفس لوامہ کے درمیان رہتے ہوئے خوش و خرم زندگی گزارتا ہوں اور میں اھون البلیتن کے بہانے خلط ملط چیزوں کو احمد اچار کہہ کر کھانوں کے لطف کو چار چاند لگانے کے دلائل کا انبار لگاتا ہوں تو میں سوچتا ہوں کہ یہ سب کچھ ٹھیک ہے عرف عام کے مطابق ہے اشباہ و نظائر کے عین مطابق ہے ۔ مگر اصل حقیقت تو یہ ہے کہ استاذ محترم حضرت شیخ الحدیث مولانا عبدالحق دامت برکاتہم کی صحبت میں رہتے ہوئے اس زمانے میں میرا تقویٰ درجہ ابرار کے برابر شاید تھا ۔ اب قارئین یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایسے طالب العلم جس کا درجہ شاید نفس لوامہ سے آگے درجہ ابرار کے قریب ہو ان کیلئے حضرت فانی ؒ کے درس میں شامل علم ادب کی کتابوں سے عجیب و غریب تصور لینا کیا ممکن نہ تھا۔ مجھے یاد ہے کہ پرانے الحق دفتر کے نیچے والا کمرہ قند ھاری طالبان کا تھا جہاں مولانا عبدالرحیم اخوند ، گل محمد آغا وغیرہ مقیم تھے ۔ ایک دفعہ شب جمعہ تھی سارے طلبہ انجمنوں میں چلے گئے اور حضرت فانی صاحب مجھے قند ہاریوں کے کمرے میں لے گئے کیا دیکھتا ہوں کہ طلبہ چاروں اطراف پر براجماں ہیں طلبہ کے سر چادروں میںڈھانپے ہوئے ہیں درمیان میں ایک طالب جان ناچ رہا ہے ایک طالب العلم منہ سے ڈول باجوں کے عجیب و غریب سریلی آوازیں نکال رہا ہے فارسی میں کچھ اشعار سنائے جا رہے ہیں اور کبھی کبھی اشعار کہہ کہہ رو بھی پڑتا ہے ۔ میرا حال بے حال ہو رہا تھا ماتھے سے پسینہ بہنا شرو ع ہوااور ایک حیران کن منظر کا سامنا شروع ہوا ے