عجب وکبر وغیرہ، پھر جو تدبیر شیخ بتلائے اس پر عمل کرے جیسا کہ امام غزالی نے ہر ہر مرض کی حقیقت اور ہر ایک کا جدا جدا علاج (احیاء العلوم میں ) بیان فرمایا ہے۔ صحیح طریقہ تو یہ ہے تصوف کا ، اور ایک وہ ہے جو آج کل لوگوں نے اپنی رائے سے سمجھ رکھا ہے کہ بس ذکر و شغل ہی پر کفایت کرنے لگے، یادرکھو! اس طرح باطن کی اصلاح نہیں ہوتی، بلکہ صورت وہی ہے کہ امراض کا علاج بھی کرو۔ مثلاً ایک شخص میں تکبر ہے تو شیخ کو چاہئے کہ ذکر وشغل کے ساتھ اس کے سپر د ایسا کام بھی کر ے جس سے نفس میں تواضع پیدا ہو، مثلا نمازیوں کے لوٹے بھر کے رکھنا ، ان کی جوتیاں سیدھی کرنا وغیرہ، اور اگر شیخ نہ بتلاوے تو طالب کو خود ایسے کام کرنے چاہئے جن سے نفس میں ذلت پیدا ہو، وعلی ہذا اگر کسی میں حسد ہے تو اس کو چاہئے کہ محسود کی تعریفیں کیا کرے ، اس سے قلب کا غبار نکل جائے گا ، اسی طرح ہر ہر مرض کا ایک خاص علاج ہے جو تصوف کی کتابوں سے معلوم ہوسکتا ہے۱؎ ، یہ ہے تہذیب اخلاق۔
اس کے بعد اس کا ثمرہ ہے یعنی رضائے حق، مگر آج کل لوگوں نے ثمرہ اس کو سمجھ لیا ہے کہ کچھ لطائف جاری ہوجائیں ، کچھ گریہ و رقت طاری ہونے لگے ، صاحبو! یہ تو احوال ہیں جو غیر اختیاری ہیں ، مطلوب وہ امور ہیں جو بندہ کے اختیار میں ہیں یعنی اخلاق حمیدہ کا حاصل کرنا اور رذائل کا علاج کرنا اسی طرح کشف بھی مطلوب نہیں ، کشف ہوتا ہو تو اس کے لئے نعمت ہے شکر کرے بشرطیکہ غوائل کبر وعجب وغیرہ سے محفوظ ہو اور جس کو نہ ہوتا ہو اس کے در پے نہ ہو وہ سمجھ لے کہ میرے لئے کامیابی کا طریقہ یہی تجویز کیا گیا ہے کہ کشف نہ ہو کیونکہ بعض دفعہ کشف سے انسان بہت سی بلاؤں میں پھنس جاتا ہے۔ بس تم اپنے لئے کوئی طریقہ تجویز نہ کرو۔
اور ساری وجہ پریشانی کی یہی ہوتی ہے کہ لوگ حالات وکیفیات کو مقصود سمجھتے ہیں حالانکہ میں نے بتلادیا کہ یہ مقاصد میں سے نہیں بلکہ محض توابع وذرائع ہیں ۔۲؎
------------------------------
۱؎ مثلاً تربیت السالک سے ۲؎ تفیصل الدین ملحقہ دین ودنیا ص ۱۱۹تا ۱۲۳