کہتے ہیں ،تجدید وارتقا کے منازل سے برابر گذرتا رہا اور ہر دور میں اس میں اجتہادی شان بلکہ انقلابی فکر نظر آتی رہی، سید نا عبدالقادر جیلانی ، خواجہ معین الدین چشتی ؒ ، خواجہ بہاء الدین نقشبندی اور شیخ شہاب الدین سہروردی اپنے اپنے دور کے امام اور اس فن کے مجتہد مطلق تھے، ان کے بعد ہر ایک کے سلسلہ میں تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد مجددو مجتہد پیدا ہوتے رہے۔................
اسی سلسلۃ الذہب کی ایک طلائی کڑی حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی ذات تھی وہ ایک طرف علوم دینیہ کے ایک متبحر اور راسخ العلم عالم تھے ، دوسری طرف ان کو ایسا زمانہ ملا جو نئے نئے تمدنی مسائل ومشکلات سے گرانبار تھا ، زندگی کی مصروفتیں بہت بڑھ گئی تھیں ، قوائے جسمانی اور طبیعتیں کمزور اور سہولت پسند واقع ہوئی تھیں ، اور اس سب پر مستزاد یہ کہ تصوف اور سلوک سے ایک طرح کی وحشت اورخوف اور بعض تعلیم یافتہ طبقوں میں انکار کا رجحان پایا جاتا تھا ، اس سب کا تقاضہ تھا کہ جو شخص اس زمانہ میں اصلاح وتربیت اور اس ’’ طب نبوی‘‘ کی اشاعت وحفاظت کے لئے منتخب ہو وہ ان تمام حقائق سے واقف اور اس پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتا ہو ، وہ اپنی مجتہد انہ صلاحیت سے اس کا علاج ومعالجہ کو سہل ، عمومی ، ہر طبقہ کے لئے قابل عمل اور باعث کشش بنادے اور اس میں ایک ایسی نئی روح پھونک دے کہ اس کا مطب مرجع خاص وعام بن جائے اور وہاں صرف دوا سے نہیں بلکہ غذاسے بھی ، شدید پرہیز نہیں بلکہ وسعت ورعایت سے بھی، قیمتی مرکبات سے نہیں بلکہ روز مرہ کے مفردات اور پیش یا افتادہ چیزوں سے بھی پیچیدہ امراض کا علاج ہوتا ہو اس کو انسانی نفسیات وطبائع اور مرض ومریض کے تغیرات کا ایسا وسیع علم اور تشخیص وتجویز کا ایسا ملکۂ راسخ عطا ہو کہ وہ چٹکیوں میں بڑے بڑے مریضوں کا علاج کردیتا ہو، یہ حکیم الامت کے مطب کی خصوصیات ہیں جن کی تصدیق تربیۃ السالک، امداد السکوک وغیرہ کے صفحات اور حکیم الامت کے مکتوبات سے بخوبی ہو سکتی ہے۔ ( پیش لفظ سلوک سلیمانی ص۴۲،۳۵ )