بند ہوگئے ۔ ہندوستان کے گوشہ گوشہ سے طالبین مخلصین سمٹ آئے۔سالکین ذاکرین کی آمد ورفت ہوئی، علماء اور طلباء کے اجتماع ہوئے ۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ اپنی مجلس میں علوم ومعارف وحقائق کے دریا بہاتے اہل ذوق حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی باتیں سنتے ، اور لکھتے، عارفین جھومتے اور اہل دل وجد کرتے اور تعلق مع اللہ کا وجدان حاصل کرتے۔ بڑے بڑے علماء عقلا اور فلسفی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے گردن جھکا کر بیٹھ جاتے، وہ حقائق ومعارف جو عربی وفارسی زبان میں تصوف وسلوک کی بڑی بڑی کتابوں میں راز کی صورت میں مدون تھے اس دور آخر کے مجدد نے علی الاعلان بڑی سہل اردوزبان میں سب کے سامنے ظاہر کردیئے اور فن تصوف کے ایک ایک جزو کو ایسا بے غبار کردیا کہ صدیوں تک تجدید کی ضرورت باقی نہ رہی اور اس شاہراہ پر دور دور تک کسی رہزن طریق کی مجال نہیں کہ دھوکا دے سکے۔
ہمارے حضرت نے جس طرح شریعت کی بدعات کو مٹایا اسی طرح طریقت کی بدعات کو بھی ختم کیا اور چاروں سلسلوں چشتیہ ،نقشبندیہ، سہر وردیہ ، قادریہ کی تجدید فرمائی اور صاف صاف وضاحت فرمادی کہ طریقت جو عین شریعت وسنت ہے ، اس کے خلاف جو کچھ ہے وہ زندقہ ہے۔
ہمارے حضرت رحمۃ اللہ علیہ چاروں سلسلوں میں بیعت فرماتے تھے اور یہی حضرت حاجی امداداللہ صاحب مہاجرمکیؒ قدس سرہ‘ العزیز کا مسلک تھا ۔
تمام سلسلوں کے بزرگوں کا یہی نصب العین تھا کہ سالکین اور طالبین حق کی اصلاح باطن اور تزکیہ نفس کے لئے حسب ضرورت مجاہدے کرائے جائیں تاکہ ان کے قلوب کی صلاحیتیں درست ہوجائیں اور کیفیت تقویٰ پیدا ہو جوذریعہ ہے حصول رضائے حق اور تعلق مع اللہ کا۔ اس کے لئے وہ جو تدابیر فرماتے تھے وہ حدود شرع وسنت کے مطابق ہوتی تھیں کیونکہ تزکیہ نفس وہی ہے جس کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم منجانب اللہ مامور تھے۔