باطنی گناہوں کو بھی چھوڑنے کا حکم دیا ہے ، چنانچہ ارشاد ہے :
وَذَرُوْ اظَاہِرَ الْاِثْمِ وَبَاطِنَہ‘ (انعام پ۸)
’’ اور تم ظاہری گناہوں کو بھی چھوڑ دو اور باطنی گناہوں کو بھی چھوڑ دو۔
باطنی امراض کو دور کرکے قلب کو آراستہ کرنے اور اخلاق حسنہ واوصاف حمیدہ سے متصف ہونے کو تصوف وتزکیہ نفس اور اصلاح باطن کہتے ہیں ۔ حدیث پاک میں ایسے شخص کے لئے بڑے فضائل وارد ہوئے ہیں جو اپنے اعمال واخلاق کی اصلاح کرے۔
حضرت ابوامامۃ رضی ا للہ عنہ نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل فرمایا ہے کہ میں ایسے شخص کے لئے جنت کے بلند مقام اور اعلیٰ محل کی ضمانت لیتاہوں جو اپنے اخلاق کو درست کرلے۔۱؎
ظاہری وباطنی اعمال واخلاق کی اصلاح اور تزکیہ نفس وہ عظیم الشان کام ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری زندگی انجام دیا ، چنانچہ آپ کے ارشادات میں اس نوع کی تعلیمات وہدایات بھی بکثرت ملتی ہیں مثلاً یہ کہ غصہ و جذبہ انتقام کے وقت آدمی کو کیا کرنا چاہئے۔
صحابہ کرام آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنی باطنی کیفیات اور حالات عرض کرتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی رہنمائی فرماتے تھے، ایک صحابی نے آکر عرض کیا یا رسول اللہ میرے دل میں گناہ کرنے اور زنا کرنے کا تقاضا ہوتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی پوری کیفیت سنی اور علاج فرمایا۔ ۲؎
ایک صحابی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم) میرے دل میں سختی ہے اس سختی کو نرمی سے کیسے بدلوں ، آپ نے اس کی تدبیر ارشاد فرمائی ، حضرت حنظلۃ وصدیق اکبر جیسے جلیل القدر
------------------------------
۱؎ ابوداؤد شریف کتاب الادب ص۶۶۱ ج۲ ۲؎ ابن کثیر