عرض کرتا ہوں کہ دنیا میں اگر کسی سے تعلق اور لگاؤ ہوجائے اس وقت اسی کی طر ف ہر وقت خیال لگارہتا ہے۔ اس کی رضا مندی کی دھن اور ناراضگی کا ہر وقت خیال رہتا ہے ۔ اس ماجرہ کے علاوہ کوئی دوسرا خیال یا کوئی دوسری بات جس کو اس محبوب سے کوئی تعلق نہ ہو تو وہ خیال وبات بری معلوم ہوتی ہے ۔اور طبیعت میں ایک قسم کا تکدر پیدا ہوتا ہے ، اور اسی وقت اس محبوب کی طرف طبیعت کا رجوع ہوتا ہے ، اسی طرح میری حالت ہورہی ہے، کہ ایک قسم کا ایسا تعلق معلوم ہوتا ہے کہ ہر وقت اسی طرف خیال کے رہنے سے دل میں سکون وراحت محسوس ہوتی ہے ، اگر چہ اس حالت میں ایک قسم کا ثقل بھی ہے مگر اس ثقل سے کوئی تکلیف نہیں ہے ، بلکہ راحت وچین ہے۔ اور اگر کوئی چیز مخالف اس خیال کے پیش آتیہے تو نہایت تکدرہوتا ہے، اور فوراً اسی خیال کی طرف توجہ ہوجانے سے سکون وراحت ہوجاتی ہے، یہ حالت کل کی تھی ، آج بعد تہجد بمع اس حالت کے ایک امر پیدا ہوا کہ عالم میں خداوند تعالیٰ جل جلالہ‘ ہی موجود ہیں ماسوائے پروردگار کے سب مظاہر ہیں ۔ اور پروردگار ظاہر ہے ، اور اسکی مثال یوں سمجھ میں آئی کہ جیسے بجلی گھر میں سب روشنیوں کامجمع ہوتا ہے ۔ اور جس کسی لالٹین کو روشنی ملتی ہے وہ اسی مجمع سے ملتی ہے، یہ بالکل سیاہ ہی سیاہ ہے، اور جب اس مجمع والا اس روشنی کو بند کردیتا ہے تو سب لالٹینیں سیاہ ہوجاتی ہے تو دیکھنے والا جب لالٹین کو روشن دیکھتا ہے تو سمجھتا ہے کہ یہ روشنی اس کی نہیں ہے بلکہ اس کا رخانہ بجلی سے آرہی ہے۔ یہ سب لالٹین مظاہر اس مجمع روشنی کے ہیں ۔ مثلاً کفار صفت مضل کا مظہر ہیں اور مومنین صفت ہادی کے مظہر ہیں ۔ اور نیزصبح سے پستی ونیستی بہت غالب ہورہی ہے۔ جو ہوشیاری سابق میں تھی بالکل معدوم ہے ۔ اور جو کوئی کام دیکھتا ہوں یا کرتا ہوں تو یوں سمجھ میں آتا ہے کہ سب امور کے کرانے والا تو اللہ تعالیٰ ہے ، فقط انسان کویک واسطہ قرار دیا ہے۔
تحقیق: الحمد للہ نسبت باطنیہ وحالت فنا وتوحید شروع ہوئی ۔ اللہ تعالیٰ تکمیل فرمادے۔ ( تربیت السالک ص ۸۴)