کے مکتوب کے بیشتر حصہ کی نقل خدمت والا میں کئے دیتاہوں ۔
’’حضرت مولانا ئے محترم کا مضمون نہایت شوق سے پڑھا ۔ الحمد للہ د ل سے بے ساختہ دعا نکلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مولانا کی عمر اور دل ودماغ میں بہت بہت وسعت اور برکت دیں اور مسلمانوں کو ان کے ملفوظات وافادات سے مستفید ہونے کی توفیق، آمین ثم آمین۔ سچ تو یہ ہے کہ حضرت کو اللہ نے عجیب وغریب جامعیت عطا فرمائی ہے برکف جام شریعت یہ مولان ہی کی شان ہے۔ شریعت اور طریقت دونوں کا سر رشتہ کہیں بھی ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے۔ اور دونوں کے واجبی احترام میں ذرا بھی فرق نہ آنے پائے ۔ اس معاملہ میں ناظرین سچ کی طرف سے زیادہ شکریہ کے مستحق آپ ہیں کہ آپ کے حسن سعی سے حضرت مولانا کے اس عالمانہ وحکیمانہ افادہ اور فنی تحقیق سے ہم سب مستفید ہوئے ، کئی بار پڑھ چکاہوں اور پھر پڑھنے کا جی چاہتا ہے ۔
لیکن حضرت ایک خلش ابھی باقی رہ گئی جو اگر دور ہوسکتی ہے تو آپ ہی کی وساطت اور توجہ سے ڈرتے ڈرتے عرض کرتا ہوں ۔ وہ یہ کہ خود حضرت مولانا کا طرز عمل اپنی اس تعلیم سے مختلف کیوں نظر آتا ہے آپ کے علم ومشاہدہ میں متعدد واقعات ایسے ہوں گے کہ ادنیٰ سے اختلاف پر مولانا سخت ناخوش ہوگئے اور یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ یہ یہ انقباض اور تکدر محض طبعی رہا بلکہ اس کااثر تعلقات تربیت پر پڑا۔ ایک آدھ مثال میرے علم میں ایسی ہے کہ حضرت نے ایک صاحب علم وفضل اور غایت درجہ معتقد سے محض اتنی بات پر قطع تعلق فرمادیا کہ ان میں ایک اجتہادی فرعی مسئلہ بلکہ اس کے ایک جزئیہ میں دیانۃً مولانا سے اختلاف تھا ۔ ایسے واقعات کی کیا توجیہ کی جائے ۔ اگر میری ہی سمجھ کا پھیر ہوتو ازراہ شفقت وکرم آپ مجھے تفصیل سے سمجھادیں ‘‘۔
تفصیلی جواب تو ان صاحب کو میں خود انشاء اللہ دے لوں گا میری امداد صرف اجمالی نکات سے فرمادی جائے۔