اس کے خلاف ہی ہر جگہ پایا، ایک حاجی صاحب ؒ کے ہاں عمل تو البتہ اسی تعلیم کے مطابق سننے میں آیا ہے۔
جواب: اس کا سہل جواب تو یہ ہے کہ اہل تعامل اس کے ذمہ دار ہیں اور تبرع کے درجہ میں جواب یہ ہے کہ جو لوگ ایسا کرتے ہیں یا تو ان کو حدود کا علم نہیں اور یا محبت وعظمت سے مغلوب ہیں ۔
مضمون:اب اجازت چاہتاہوں کہ کوئی مصلحت اگر مانع نہ ہو تو مقالہ گرامی کو اپنی تمہید کے ساتھ سچ میں شائع کردوں ۔ انشاء اللہ بہت نافع ہوگا۔
جواب: خوشی سے آپ کا ہم رائے ہوں ، مگر تمہید میں مبالغہ نہ ہو ۔ اگر اول میں دیکھ لوں تو احتیاط کی بات ہے۔
مضمون: تمہید کی عبارت حسب ارشاد والا ملاحظہ کے لئے ملفوف ہے۔
جواب: بہت مناسب ہے بجز غزالی وقت وغیرہ الفاظ کے۔
(اس عریضہ میں ایک خاص بات یہ تھی کہ ایک شبہہ جو خود حضرت کی ذات پر بہ حیثیت شیخ کے پیدا ہورہا تھا، اس کو بھی حضرت کی خدمت میں نقل کردیا گیا تھا ۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں اس نامہ سیا ہ کے حدود حضرت کے عام مریدین ، معتقدین مسترشدین سے بالکل الگ ہوجاتے ہیں ۔ یہ حضرات ایسی چیزیں زبان پر لانا ہی دوسروں کی نیابت وترجمانی میں بھی سوء ادب میں داخل سمجھتے تھے ۔ یہ عاجز ایک غیر معصوم بزرگ پر خود ایسے شبہات کے ایراد میں کوئی مضایقہ نہیں پاتا ، چہ جائیکہ دوسروں کی ترجمانی میں بہرحال مکتوب کا یہ جزو اور اس کا جواب دونوں ہی ملاحظہ ہوں )
مضمون:’’سچ میں جناب کا مقالہ’’ الاعتدال فی متابعۃ الرجال‘‘ پڑھ کر متعدواشخاص نے مجھے زبانی بھی مبارکباددی اور خطوط بھی آئے۔ ایک صاحب کا خط ایک خاص قسم کا آیا۔ وہ جواب کے طالب مجھ سے ہیں لیکن میں تو جناب والا کی رہنمائی کے بغیر انہیں کچھ نہیں لکھ سکتا ’’حل این نکۃ ہم ازروئے نگار آخرشد‘‘کے مصداق ان