مسافر خواہ اپنے وطن سے سینکڑوں میل دور چلا جائے لیکن وطن اور اہل و عیال کی یاد سے کبھی غافل نہیں ہوتا، اس کو ہر وقت یہی فکر رہتی ہے کہ سفر کامیاب ہو اور جلدی سے اپنے اہل و عیال سے جاملوں، وہ جس مقصد کے لئے آیا ہے اس میں کوتاہی نہیں کرتا ، دن رات میں جب بھی موقع ملتا ہے محنت و کوشش سے گریز نہیں کرتا، یہی حال ایک مسلمان کا اس دنیوی سفر میں ہوتا ہے، وہ اپنے وطن جنت کی تیاری کے لئے یہاں آیا ہے، اس لئے وہ اپنے مقصد کی تکمیل میں لگارہتا ہے، ایک پردیس کی طرح وہ بھی دنیا میں راحت و آرام کی فکر نہیں کرتا بلکہ سفر کی ناکامی کے خطرے سے ہر وقت خوفزدہ رہتا ہے، اور جب بھی موقع ملتا ہے اپنا اصلی وطن سنوارنے میں لگ جاتا ہے، رسول اللہ ﷺ نے اس کیفیت کو اس انداز سے بیان فرمایا ہے:من خافَ ادلجَ ومن أدلجَ بلغَ المنزِل الا إنّ سلعةَ اللہ غاليةٌ الا إنّ سلعة اللہ الجنّةُ (ترمذی)’’جو ڈرتا ہے وہ ابتدائے شب سے سفر شروع کردیتا ہے، اور جو ابتدائے شب سے سفر شروع کرتا ہے وہ منزل تک پہنچ جاتا ہے، سنو! بے شک اللہ کا سامان مہنگا ہے، سنو! بے شک اللہ کا سامان جنت ہے‘‘۔
جوانی میں عدم کے واسطے سامان کر غافل
مسافر شب کو اٹھتا ہے جوجانا دور ہوتا ہے
جو یہاں رک کر سیر و سیاحت میں اور آرام و راحت میں مشغول ہوگیا ، وطن کو بھول کر پردیس کی رنگ و بو میں محو ہوگیا اس کو وطن واپسی کے وقت بڑی شرمندگی ہوگی،بڑا افسوس ہوگا، ایک شخص دہلی یا بمبئی کسب معاش کے لئے گیا لیکن ایک سال رہ کر جب گھر واپس آیا تو کچھ بھی لے کر نہیں آیا ، گھر والوں کی ساری امیدیں خاک میں ملادیں، کیا ایسے شخص کو گھر واپسی کی کوئی خوشی ہوسکتی ہے، اور کیا گھر والوں کو اس سے ملنے کی خوشی ہوسکتی ہے، لیکن اس کی تلافی دوسرے سفر میں ممکن ہے جبکہ اخروی سفر تو ایسا ہے کہ ایک ہی مرتبہ موقع ملے گا، اگر اس میں کوئی کمی رہ گئی تو دوبارہ سفر کی اجازت نہیں ملے گی۔