ارادے رکھتا ہے اور نیک کام کرنے کی تمنائیں رکھتا ہے لیکن کوئی ایسی رکاوٹ اچانک پیش آجاتی ہے کہ وہ اپنے ارادے پورے نہیں کرسکتا، پھر انسان کو بڑی حسرت اور بڑاافسوس رہ جاتا ہے کہ میری سستی و کاہلی کی وجہ سے ارادے ارادے ہی رہ گئے، آج ان ارادوں کی تکمیل میں مجبوریاں حائل ہوگئیں ، مثلا آدمی کبھی ایسا محتاج ہوجاتا ہے کہ اسے اپنی ضروریات کے علاوہ کچھ یاد نہیں رہتا، اسی طرح کبھی ہضم کی طاقت سے زیادہ مال مل جاتا ہے جس سے آدمی اپنی خواہشات کے پیچھے تمام شرعی حدیں پار کرجاتا ہے، کبھی بیماری انسان کو بے بس کردیتی ہے ، لہذا عوارضات کے لاحق ہونےسے پہلے وقت کا بھر پور فائدہ اٹھالینادانشمندی کا تقاضا ہے، جب رکاوٹیں پیش آجائیںگی تب وقت وصول کرنے کا موقع ختم ہوجائے گا،حضرت ابوہریرہ ؒ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
بَادروا بالأعمال سبعاً: هل تنتظرون إِلا فقرا مُنْسِيا، أَوْ غِنى مُطْغيا، أَوْ مرضًا مُفْسِدًا، أَوْ هرَما مفندًا، أَوْ مَوْتًا مجھِزًا أَوِ الدّجالَ فَشر غائبٍ يُنْتَظَرُ أَوِ الساعَةَ فَالساعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ۔(شعب الایمان)
’’سات چیزوں کے آنے سے پہلے اعمال کرلو (جو شخص صحت و فراغت کے زمانے میں بھی اعمال صالحہ کی طرف نہیں بڑھتا ایسے شخص کو بطور زجر و توبیخ کے ارشاد فرمایا ) کیا تمہیںان سات چیزوں ہی کا انتظار ہے،ایسے فقر کا جو ہر چیز بھلادے یا ایسی مالداری کا جو سرکشی پر آمادہ کرے یا ایسے مرض کا جو(بدن یا دین کو) تباہ کردینے والا ہو یا ایسے بڑھاپے کا جو بد حواس کردے یا اچانک آنے والی موت کا یا دجال کا پھر تو بہت بری غیر موجود شر کا انتظار کیا جاتا ہےیا قیامت کا اور وہ تو بڑی سخت اور بہت ہی تلخ ہے،(یعنی کیا ان عوارض کا انتظار ہےکہ ابھی موقع ملنے کے باوجود اعمال سے پیچھے ہٹ رہے ہو)‘‘۔