تقریبا بیس سال پہلے چھوٹے بچوں کے دلوں میں تصویر کی اتنی نفرت بیٹھی ہوئی تھی کہ جب اسکول میں نصاب کی کتابیں ملتیں تو پہلے دن مسلم بچوں کا یہ کام ہوتا تھا کہ پوری کتاب میں ذی روح کی تصاویر تلاش کرکرکے ان کی آنکھیں یا پورا چہرہ قلم یا پنسل سے مسخ کردیتے، بازار سے جو چیز خرید کر گھر لائی جاتی اس پر بھی ذی روح کی تصویر برداشت نہ کی جاتی، اس پر نظر پڑتے ہی بچہ اپنا پہلا فرض یہ سمجھتا تھا کہ اس تصویر کا سر کاٹ دیا جائے، لیکن آج کا ماحول دیکھئے کہ سو میں نوّے موبائیل تصاویر سے بھرے نظر آئیں گے، ذرہ بچے کو کودتے ہوئے دیکھا کیمرہ کھل گیا، کسی نئی جگہ پہنچ گئے اپنی اور دوستوں کی تصاویر سے موبائیل بوجھل ہوگیا، اس کے علاوہ بھی دنیا بھر کے لوگوں کی تصاویر سے موبائیل کو سجا رکھا ہے، مسینجر میں اپنے پروفائل پر اپنی یا بیٹے کی تصویر رکھی ہوئی ہے، سوال یہ ہے کہ تصاویر سے شریعت نے جو نفرت پیدا کی تھی وہ کہاں گئی؟ کس وادی میں کھوگئی؟ ہاں وہ اس موبائیل کے سیلاب میں بہہ گئی، عورتوں کی تصاویر میں دوہرا گناہ ہے، عورتوں کی تصاویر دیکھنا پہلے بھی گناہ تھا اب بھی گنا ہے، پہلے بھی یہ گناہ لوگوں سے ہوتا ہوگا، اب بھی ہورہا ہے، لیکن پہلے دیکھنے والا لوگوں کی نظروں سے چھپ کر دیکھتا تھا، اگر کوئی مطلع ہوگیا تو اس پر بڑا شاق گذرتا تھا، اور شرم محسوس کرتا تھا، مطلع ہونے والا بھی دیکھنے والے کی اس حرکت سے نفرت کرتا تھا، لیکن آج لطیفوں ، خبروں اور تماشوں کے بہانے بھری محفل میںعورتوں کی تصاویر اور متحرک تصاویر دیکھی جاتی ہیں، گویا اہم خبروں کے لئے عورتوں کی تصویر دیکھنے میں کوئی قباحت ہی نہ ہو، بھری مجلس میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہوتا جس کے اندر ایمانی حیاء جوش میں آئے،اور وہ خود بھی دیکھنے سے شرمائے اور دوسروں کو بھی شرم دلائے، گویا شرم و حیا کی چیزوں میں اس فعل کا شمار ہی نہ ہو، ان محفلوں کی شرم و حیاء پر کس نے جھاڑو پھیر دیا، مجلسوں کو بے حیائی کی اس حد تک کس نے لاکھڑا کیا ؟ اس کا ذمہ دار بھی موبائیل ہے، اللہ امت کو اس کے شرور و فتن سے محفوظ رکھے۔