۴۶۔ لائے نفی جنس کا کیا عمل ہے؟ ۴۷۔ لائے نفی جنس کا اسم اکثر کیسا ہوتا ہے؟
۴۸۔ لائے نفی جنس کا اسم کب فتحہ پر مبنی ہوتا ہے؟
۴۹۔ افعالِ مقاربہ کی تعریف مع مثال بیان کرو۔
۵۰۔ افعالِ مقاربہ کتنے ہیں؟ ۵۱۔ عَسیٰ کس لیے ہے؟
۵۲۔ کَادَ کس لیے ہے؟ ۵۳۔ باقی افعالِ مقاربہ کیا معنی دیتے ہیں؟
الدَّرسُ الثاني والثَّلاثون
مفعول مطلق کا بیان
مفعول مطلق وہ مصدر ہے جو فعل کے ہم لفظ یا ہم معنی ہو اور فعل کے بعد آئے۔ جیسے: ضَرَبْتُ ضَرْبًا اور قَعَدْتُّ جُلوسًا۔ مفعول مطلق منصوب ہوتا ہے اور تین مقاصد کے لیے آتا ہے۔
۱۔ تاکید کے لیے۔ جیسے: ضَرَبْتُ ضَرْبًا (میں نے مار ماری )۔ ۲۔ کام کی نوعیت بیان کرنے کے لیے۔ جیسے: جَلَسْتُ جِلسۃَ القاري (میں قاری کی طرح بیٹھا)۔ ۳۔ کام کی تعداد بیان کرنے کے لیے۔ جیسے: جَلَسْتُ جَلْسَۃً (میں ایک مرتبہ بیٹھا)۔
قاعدہ: جو مفعول مطلق تاکید کے لیے ہوتا ہے اس کا تثنیہ، جمع نہیں آتا اور جو عدد کے لیے ہوتا ہے اس کا تثنیہ، جمع آتا ہے۔ جیسے: جَلَسْتُ جَلْسَۃً / جَلْسَتَیْنِ/ جَلْسَاتٍ (میں ایک مرتبہ / دو مرتبہ / کئی مرتبہ بیٹھا) اور جو نوع کے لیے ہوتا ہے اس میں اختلاف ہے۔
قاعدہ: جب قرینہ پایا جائے تو مفعول مطلق کے فعل کو حذف کرنا جائز ہے۔ جیسے: آنے