الدرسُ الثامنُ والأربعون
اسم تفضیل کا بیان
اسم تفضیل وہ اسم مشتق ہے جو دوسرے کی بنسبت معنی فاعلی کی زیادتی کو بتلائے۔ جیسے: زَیْدٌ أَکْبَرُ مِنْ أَخِیْہِ (زید اپنے بھائی سے بڑا ہے)۔ اسم تفضیل واحد مذکر وزنِ فعل اور صفت کی وجہ سے غیر منصرف ہوتا ہے اس وجہ سے اس پر کسرہ اور تنوین نہیں آتی۔ اور اسمِ تفضیل واحد مؤنث کے آخر میں الف مقصورہ ہوتا ہے، اس لیے اس کا اعراب تقدیری ہوتا ہے۔ جیسے: ہذہ فُضْلیٰ، رَأَیْتُ فُضْلیٰ، مَرَرْتُ بِفُضْلیٰ۔
اسم تفضیل کا فاعل ہمیشہ ضمیر غائب ہوتی ہے جو اس میں پوشیدہ رہتی ہے۔ مذکورہ مثال کی تقدیری عبارت زَیْدٌ أَکْبَرُ ہُوَ مِنْ أَخِیْہِ ہے۔
اسمِ تفضیل کا استعمال تین طرح ہوتا ہے:
۱۔ مِنْ کے ساتھ: اس صورت میں اسم تفضیل پر ال نہیں آتا نہ وہ مضاف ہوتا ہے اور ہمیشہ مفرد مذکر استعمال ہوتا ہے۔ جیسے: زَیْدٌ / الزَّیْدَانِ / الزَیْدُوْنَ / ہِنْدٌ / الہِنْدَانِ / الہِنْدَاتُ أفْضَلُ مِنْ عَمْرٍو / مِنْ فَاطِمَۃَ۔
۲۔ الف لام کے ساتھ: اس صورت میں اسم تفضیل کی اس کے ما قبل سے مطابقت ضروری ہے۔ جیسے: زَیْدُ نِالأفْضَلُ، الزَیْدَانِ الأفْضَلَان، الزَیْدُوْنَ الأفْضَلُوْنَ، ہِنْدُ نِالْفُضْلیٰ، الہِنْدَانِ الْفُضْلَیَان، الْہِنْدَاتُ الْفُضَلُ/ الفُضْلَیَاتُ۔
۳۔ اضافت کے ساتھ: اس صورت میں اسمِ تفضیل کو مفرد مذکر لانا اور ما قبل کے مطابق