۲۔ اس پر تنوین ہونے کی حالت میں۔ جیسے: عجبتُ مِن ضربٍ زَیْدًا۔
۳۔اس پر ال ہونے کی حالت میں۔جیسے: عجبتُ من الضرب زیدًا۔
اسمِ فاعل کا بیان
۲۔ اسم فاعل وہ اسمِ مشتق ہے جو ایسی ذات پر دلالت کرے جس کے ساتھ کوئی فعل نیا قائم ہوا ہو۔ جیسے: ضارب وہ شخص ہے جس کے ساتھ مارنا نیا قائم ہوا ہو، ہمیشہ سے اس میں یہ صفت نہ ہو۔ اسمِ فاعل فعل معروف جیسا عمل کرتا ہے۔ اگر اس کا فعل لازم ہے تو صرف فاعل کو رفع دے گا اور متعدی ہے تو فاعل کو رفع اور مفعول کو نصب دے گا۔ جیسے: جَائَ نِي الْقَائِمُ أَبُوْہُ اور أَضَارِبٌ زَیْدٌ عَمْرًا؟ اسم فاعل بھی اکثر اپنے معمول کی طرف مضاف ہوتا ہے۔ جیسے: زَیْدٌ ضَارِبُ الغُلَامِ۔
اسم فاعل کے عمل کے لیے دو شرطیں ہیں:
۱۔ اسم فاعل حال یا استقبال کے معنی میںہو، اگر ماضی کے معنی میں ہوگا تو عمل نہیں کرے گا2 اور یہ شرط اس وقت ہے جب اسم فاعل پر ال بمعنی الذي نہ ہو۔
۲۔ اسم فاعل سے پہلے سات چیزوں میں سے کوئی ایک چیز ہونی چاہیے۔ وہ سات چیزیں یہ ہیں:مبتدا، موصوف، ذو الحال، حرفِ ندا، حرفِ استفہام، حرفِ نفی اور اسمِ موصول۔جیسے: ہُوَ ضَارِبُ1 التلامیذ، مَرَرْتُ بِرَجُلٍ ضَارِبٍ زَیْدًا، جَائَ زَیْدٌ رَاکبًا فَرَسًا، یَا طَالعًا جَبَلاً، أَضَارِبٌ زَیْدٌ عَمْرًا؟ مَا قَائِمٌ زَیْدٌ، جَائَ نِي الْقَائِمُ أبُوْہُ۔
الدَّرسُ السَّابع والأربعون