ایک صیغہ میں ضمیر مرفوع متصل مستتر ہوتی ہے اور باقی صیغوں میں بارز ہوتی ہے۔
ن وقایہ وہ نہے جو فعل کے آخر کو کسرہ سے بچانے کے لیے لایا جاتا ہے۔ یہ ن دو صورتوں میں لانا ضروری ہے:
۱۔ جب صیغۂ ماضی کے آخر میں ي لگے۔ جیسے: ضَرَبَنِيْ، ضَرَبَانِيْ، ضَرَبُوْنِيْ إلخ۔
۲۔ مضارع کے جن صیغوں میں ن اعرابی نہیں ہے، جب ان کے آخر میں ي لگے۔ جیسے: یَضْرِبُنِيْ، تَضْرِبُنِيْ وغیرہ۔
مرجع ضمیر کے لوٹنے کی جگہ کو کہتے ہیں۔جیسے: زَیْدٌ أَبُوْہٗ قَائِمٌ میں ہٗ کا مرجع زَیْد ہے۔
قاعدہ: مرجع صرف ضمیر غائب کا ہوتا ہے، ضمیر حاضر اور ضمیر متکلم کا مرجع نہیں ہوتا۔
قاعدہ: مرجع عام طور سے ضمیر سے پہلے ہوتا ہے، اگر ضمیر پہلے ہو اور مرجع بعد میں ہو تو اس کو اضمار قبل الذکر کہتے ہیں۔
ضمیر شان اور ضمیر قصہ وہ ضمیر غائب ہے جو جملہ کے شروع میں مرجع کے بغیر لائی جاتی ہے اور بعد کا جملہ اس کی تفسیر کرتا ہے۔ مذکر کی ضمیر، ضمیر شان اور مؤنث کی ضمیر، ضمیر قصہ کہلاتی ہے۔ جیسے: إنَّہٗ زَیْدٌ1 قَائِمٌ (بے شک شان یہ ہے کہ زید کھڑا ہے)، إِنَّہَا زَیْنَبُ قَائِمَۃٌ (بے شک قصہ یہ ہے کہ زینب کھڑی ہے)۔
ضمیر فصل وہ ضمیر ہے جو خبر اور صفت میں امتیاز کرنے کے لیے لائی جاتی ہے اور ایسے مبتدا اور خبر کے درمیان لائی جاتی ہے جو دونوں معرفہ ہوں۔ جیسے: الرَّجُلُ2 ہُوَ الطَّوِیْلُ (آدمی لمبا ہے)۔