قَرَأَتِ الیومَ زینبُ۔
۲۔ جب فاعل اسمِ ظاہر مؤنث غیر حقیقی ہو۔ جیسے: طَلَعَ / طَلَعَتِ الشَّمْسُ۔
۳۔ جب فاعل جمع مکسر ہو۔ جیسے: قَامَ/ قَامَتِ الرِّجَالُ۔
قاعدہ: جب فاعل جمع مکسر کی طرف لوٹنے والی ضمیر ہو تو فعل کو واحد مؤنث اور جمع مذکر دونوں طرح لا سکتے ہیں۔ جیسے: الرِّجَالُ قَامُوْا / قَامَتْ۔
الدَّرسُ السابع والعشرون
فاعل کے باقی قاعدے
قاعدہ: فاعل عام طور پر مفعول سے پہلے آتا ہے مگر کبھی بعد میں بھی آتا ہے۔ جیسے: ضَرَبَ زَیْدٌ عَمْرًا کہنا بھی درست ہے اور ضَرَبَ عَمْرًا زَیْدٌ کہنا بھی۔
قاعدہ: تین صورتوں میں فاعل کو مفعول بہٖ سے پہلے لانا واجب ہے:
۱۔ جب فاعل اور مفعول دونوں اسم مقصور ہوں اور اشتباہ کا1 اندیشہ ہو۔ جیسے: ضربَ موسیٰ عیسیٰ (موسیٰ نے عیسیٰ کو مارا)۔
۲۔ جب فاعل ضمیر مرفوع متصل ہو۔ جیسے: ضَرَبْتُ زَیْدًا۔
۳۔ جب مفعول إِلَّا کے بعد آئے یعنی مفعول کا حصر کرنا مقصود ہو۔ جیسے: مَا ضَرَبَ زیدٌ إِلَّا عَمْرًا (زید نے عمرو ہی کو مارا)۔
نائب فاعل کا بیان
کبھی فعل کا فاعل معلوم نہیں ہوتا یا اس کا تذکرہ مناسب نہیں ہوتا تو فاعل کو حذف کرکے