مذکورہ بالامثال میں ا لْقَوْمُ مستثنیٰ منہ ہے۔
مستثنیٰ کی ما قبل میں داخل ہونے نہ ہونے کے اعتبار سے دو قسمیں ہیں: مستثنیٰ متصل اور مستثنیٰ منفصل۔
۱۔ مستثنیٰ متصل وہ ہے جو استثنا سے پہلے مستثنیٰ منہ میں داخل ہو یا یوں کہیے کہ مستثنیٰ، مستثنیٰ منہ کی جنس سے ہو۔ مذکورہ مثال میں زید استثنا سے پہلے قوم میں داخل تھا، پھر إلَّا کے ذریعہ اس کو آنے کے حکم سے نکالا گیا ہے۔
۲۔ مستثنیٰ منفصل وہ ہے جو استثنا سے پہلے بھی مستثنیٰ منہ میں داخل نہ ہو یا یوں کہیے کہ مستثنیٰ، مستثنیٰ منہ کی جنس سے نہ ہو۔ جیسے: جَائَ الْقَوْمُ إلَّا حِمَارًا میں حِمَار، قوم میں داخل ہی نہیں ہے۔ مستثنیٰ منفصل کو مستثنیٰ منقطع بھی کہتے ہیں۔
اور مستثنیٰ منہ مذکور ہونے نہ ہونے کے اعتبار سے بھی مستثنیٰ کی دو قسمیں ہیں: مستثنیٰ مفرَّغ اور مستثنیٰ غیر مفرَّغ۔
۱۔ مستثنیٰ مفرغ وہ ہے جس کا مستثنیٰ منہ مذکور نہ ہو۔ جیسے: مَا جَائَ نِي إلَّا زَیْدٌ (نہیں آیا میرے پاس کوئی سوائے زید کے)
۲۔ مستثنیٰ غیر مفرغ وہ ہے جس کا مستثنیٰ منہ مذکور ہو۔ جیسے: جَائَ نِي الْقَوْمُ إِلَّا زَیْدًا۔
مستثنیٰ کا اعراب: مستثنیٰ بہ إلَّا منصوب ہوتا ہے مگر دو صورتوں کا حکم درج ذیل ہے:
الف۔ مستثنیٰ إلا کے بعد کلام غیر موجب1 میں واقع ہو اور مستثنیٰ منہ مذکور ہو تو نصب بھی جائز ہے اور ما قبل سے بدل بنانا بھی جائز ہے۔ یعنی جو اعراب مستثنیٰ منہ پر ہو وہی مستثنیٰ کو بھی دیا جائے۔ جیسے: مَا جَائَ نِيْ أَحَدٌ إِلَّا زَیْدًا/ زیدٌ۔