فاعل وہ اسم ہے جس کی طرف کسی فعل یا شبہ فعل1 کی نسبت کی گئی ہو اور وہ فعل یا شبہ فعل اس اسم کے ذریعہ وجود میں آیا ہو۔ جیسے: قَامَ زَیْدٌ اور قِیَامُ زَیْدٍ میں زید کی طرف فعل قَامَ اور مصدر قیام کی نسبت کی گئی ہے اور کھڑا ہونا زید کے ذریعہ وجود میں آیا ہے اس لیے زید فاعل ہے۔
فاعل ہمیشہ مرفوع ہوتا ہے اور فاعل کبھی اسمِ ظاہر ہوتا ہے، جیسے: قَامَ زَیْدٌ، اور کبھی ضمیر ہوتا ہے۔ جیسے: زَیْدٌ قَامَ۔ پھر ضمیر کبھی بارز ہوتی ہے، جیسے: کَتَبْتُ بِالْقَلمِ، اور کبھی مستتر ہوتی ہے۔ جیسے: زَیْدٌ نَصَرَ عَمْرًا۔
قاعدہ: جب فاعل اسمِ ظاہر ہو تو فعل ہمیشہ مفرد آئے گا۔ جیسے: قام الرجل/ الرجلانِ/ الرجالُ۔
قاعدہ: جب فاعل ضمیر ہو تو مفرد، تثنیہ اور جمع ہونے میں فعل اور فاعل یکساں ہوں گے۔ جیسے: الرَّجُل قَامَ۔ الرَّجلانِ قَامَا، الرجَالُ قامُوْا۔
قاعدہ: دو صورتوں میں فعل کو مؤنث لانا ضروری ہے:
۱۔ جب فاعل اسمِ ظاہر مؤنث حقیقی2 ہو اور فعل فاعل میں فصل نہ ہو۔ جیسے: قَامَتْ فَاطِمَۃُ۔
۲۔ جب فاعل مؤنث کی طرف لوٹنے والی ضمیر ہو۔ جیسے: زینبُ قامتْ، الشمسُ طلعتْ۔
قاعدہ: تین صورتوں میں فعل کو مذکر اور مؤنث دونوں طرح لا سکتے ہیں:
۱۔ جب فاعل اسمِ ظاہر مؤنث حقیقی ہو، اور فعل فاعل کے درمیان فصل ہو۔ جیسے: قَرَأَ/