جھوٹا بھی کبھی سچ بولتا ہے) ۔
قاعدہ : جب قد ماضی پر آتا ہے تو کبھی تقریب کے لیے ہوتا ہے اور کبھی تحقیق کے لیے۔ جیسے: قَدْ رَکِبَ (ابھی سوار ہوا)، {قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی} (تحقیق بامراد ہوا جو شخص گناہوں سے پاک ہوا)
الدَّرسُ التاسع والخمسون
حرفِ ردع کا بیان
حرف ردع وہ ہے جس کے ذریعہ کسی کو جھڑکا جائے۔ یہ صرف ایک لفظ کَلَّا ہے۔ جیسے: {کَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَo} (ہر گز نہیں! عنقریب جان لوگے تم)۔ کَلَّا تین طرح مستعمل ہے:
۱۔ خبر کے بعد۔ جیسے: {فَیَقُوْلُ رَبِّیْ اَہَانَنِ o} (کہتا ہے: میرے رب نے میری قدر گھٹا دی) {کَلَّا} (ہر گز نہیں!) ۔
۲۔ امر کے بعد۔ جیسے: إضْرِبْ زَیْدًا کے جواب میں کَلَّا کا مطلب یہ ہے کہ میں اس کوہر گز نہیں ماروں گا۔
۳۔ جملہ کے مضمون کو مؤکد کرنے کے لیے۔ جیسے: {کَلَّآ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَیَطْغیٰٓo} (سچ مچ بے شک آدمی حد سے نکل جاتا ہے)۔
حروفِ تنبیہ کا بیان
حروفِ تنبیہ وہ حروف ہیں جو مخاطب کی غفلت کو دور کرتے ہیں تاکہ وہ بات اچھی طرح سنے۔ یہ تین حروف ہیں: أَلَا، أَمَا، ہَا۔ پہلے دو جملہ اسمیہ اور فعلیہ دونوں پر آتے ہیں۔ جیسے: