ممیز3 وہ ہے جس کے ابہام کو تمیز دور کرے اور ممیّز تمیز ہی کا دوسرا نام ہے۔ أَحَدَ عَشَرَ کَوْکَبًا میں أَحَدَ عشر ممیزہے اور کَوْکَبًا ممیز۔
تمیز ہمیشہ نکرہ ہوتی ہے اور منصوب ہوتی ہے اور تمیز کی دو قسمیں ہیں:
۱۔ وہ تمیز جو اسمِ مفرد کے ابہام کو دور کرے۔ جیسے: عِنْدِيْ رطْلٌ سمْنًا4 میں سَمْنًا تمیز ہے جس نے رِطْلٌ کے ابہام کو دور کیا ہے۔
۲۔ وہ تمیز جو نسبت کے ابہام کو دور کرے۔ جیسے: طَابَ زَیْدٌ نَفْسًا(زید اچھی طبیعت کا آدمی ہے) اس میں نَفْسًا نے فعل اور فاعل کے درمیان جو نسبت 1 ہے اس کے ابہام کو دور کیا ہے۔
قاعدہ: پہلی قسم کی تمیز عدد، وزن، کیل اور مساحت2 کے ابہام کو دور کرتی ہے اور اس کا عامل اسمِ تام3 ہوتا ہے اور اس میں مِن مقدر رہتا ہے، اور ممیز تمیز مل کر جملہ کا جزو بنتے ہیں۔ جیسے : عِنْدِيْ أَحَدَ عَشَرَ دِرْہَمًا/ رِطْلٌ زَیْتًا / قَفِیْزٌ بُرًّا / شِبْرٌ أَرْضًا۔4
قاعدہ: دوسری قسم کی تمیز حقیقت میں فاعل یا مفعول بہ یا مبتدا ہوتی ہے اس کو مُحَوَّل کرکے تمیز بنالیا جاتا ہے، اس کا عامل وہ فعل ہوتا ہے جو پہلے مذکور ہوتا ہے۔ جیسے:{وَ اشْتَعَلَ الرَّاْسُ شَیْبًا}، {وَفَجَّرْنَا الْاَرْضَ عُیُوْنًا}۔ زَیْدٌ أکْثَرُ مِنْکَ مَالًا۔5
قاعدہ: قرینہ پایا جائے تو تمیز کو حذف کرنا جائز ہے۔ جیسے: کَمْ صُمْتَ؟ أي: کَمْ یَوماً صُمتَ؟
الدَّرسُ التَّاسِع والثَّلاثون
اعداد کی تمیز کا بیان1