قاعدہ: منادیٰ مندوب کا حکم عام منادیٰ کی طرح ہے۔ جیسے: وَازیَدُ! (ہائے زید!)، وَاعَبْدَ اللّٰہ! (ہائے عبداللہ!) اور جب اس کے آخر میں ندبہ کا الف اور آواز لمبی کرنے کے لیے ہ بڑھائی جائے تو مفتوح ہوگا۔ جیسے: وازیدَاہْ!۔
ترخیم کا بیان
ترخیم کے لغوی معنی ہیں دم کاٹ دینا اور اصطلاحی معنی ہیں منادیٰ کے آخر سے ایک یا دو حرفوں کو تخفیف کے لیے حذف کرنا اور ایسے منادیٰ کو منادیٰ مرخم کہتے ہیں۔
قاعدہ: منادیٰ مرخم پر ضمہ بھی جائز ہے اور حرف کی اصلی حرکت باقی رکھنا بھی جائز ہے۔ جیسے: مَالِکُ کو یَا مالِ اور یَا مَالُ کہہ کر اور مَنْصُوْر کو یَا مَنْصُ کہہ کر پکارنا درست ہے۔
الدّرسُ الخامس والثلاثون
مفعول لہ کا بیان
مفعول لہٗ وہ اسم ہے جس کی وجہ سے کام کیا گیا ہو۔ مفعول لہ منصوب ہوتا ہے اور اس کی دو صورتیں ہیں:
۱۔ وہ مفعول لہٗ جس کو حاصل کرنے کے لیے کوئی کام کیا گیا ہو۔ جیسے: ضَرَبْتُہٗ تأدیبًا میں مارنا ادب سکھلانے کے لیے ہے۔
۲۔ وہ مفعول لہٗ جس کے موجود ہونے کی وجہ سے کوئی کام کیا گیا ہو۔ جیسے: قَعَدتُّ عنِ الحربِ1 جُبْنًا میں بُزدلی پہلے سے موجود تھی اس وجہ سے لڑائی میں جانے کی ہمت نہ ہوئی۔