ہے۔ جیسے: مہمان سے أَہْلًا وسَہْلًا کہنا یعنی أَتَیْتَ أَہْلًا ووَطِئْتَ سَہْلًا۔1
۲۔ تحذیر کے معنی ہیں ڈرانا، اور جس چیز سے ڈرایا جائے اس کو مُحَذَّر مِنْہٗ کہتے ہیں۔ جیسے: البئر! البئرَ! (کنواں کنواں!)۔ یہاں فعل اِتَّقِ (بچ تو) محذوف ہے اور کنواں محذر منہ ہے۔ إِیَّاکَ والأسَدَ (بچ تو شیر سے) اس کی اصل اِتَّقِ نَفْسَکَ مِنَ الأسَدِ ہے یعنی بچا تو اپنے کو شیر سے۔
۳۔ إضمار علی شرط التفسیر کے معنی ہیں مفعول بہ کے عامل کو اس شرط سے پوشیدہ کرنا کہ بعد میں اس کی تفسیر آئے۔ جیسے: زَیْدًا1 ضَرَبْتُہٗ (میں نے زید کو مارا)۔ اس میں زَیْدًا سے پہلے ضرَبْتُ پوشیدہ ہے جس کی تفسیر بعد والا ضَرَبْتُ کر رہا ہے۔
۴۔ مُنادیٰ وہ اسم ہے جسے پکار کر اس کے مسمیٰ کو اپنی طرف متوجہ کیا جائے۔ جیسے: یا زیدُ! میں زید منادیٰ ہے، کیوں کہ اس لفظ کو پکار کر اس شخص کو اپنی طرف متوجہ کرنا مقصود ہے جس کا یہ نام ہے۔ منادیٰ فعل أَدْعُوْ (بلاتا ہوں) کا مفعول بہ ہوتا ہے، جس کا قائم مقام حرفِ ندا ہے۔ حرفِ ندا پانچ ہیں: یَا، أَیَا، ہَیَا، أَيْ، ہمزۂ مفتوحہ ( أَ)۔
منادیٰ کے اعراب دو ہیں:
۱۔ منادیٰ اگر مفرد2 معرفہ، یا نکرہ مُعَیَّنہ ہوتو رفع پر مبنی ہوگا۔ جیسے: یا زیدُ!، یا رجلُ!۔
۲۔ منادیٰ اگر مضاف یا مشابہ مضاف ہو، یا نکرہ غیر معینہ ہو تو منصوب ہوگا۔ جیسے: یا عبدَ اللّٰہ! یا طالعًا جبلًا! اور اندھے1 کا کہنا: یارَجُلاً! خُذْ بِیَدِيْ (ارے کون ہے! میرا ہاتھ پکڑ)۔
قاعدہ: اگر منادیٰ معرف باللام ہو تو حرفِ ندا اور منادیٰ کے درمیان فصل کرنا ضروری ہے تاکہ دو حرف اکٹھا نہ ہو جائیں۔ البتہ اسم ’’اللہ‘‘ اس قاعدہ سے مستثنیٰ ہے۔ پھر اگر منادیٰ