تاکید کا بیان
۲۔ تاکید وہ تابع ہے جو فعل کی نسبت کو یا حکم کے شمول کو ایسا پختہ کرے کہ سامع کو شک باقی نہ رہے۔ جیسے: جَاء زَیْدٌ نَفْسُہٗ (زید خود ہی آیا)۔ اس میں آنے کی جو نسبت زید کی طرف کی گئی ہے اس میں یہ احتمال ہے کہ شاید زید خود نہ آیا ہو بلکہ اس کا قاصد آیا ہو یا اس کی اطلاع آئی ہو، نَفْسُہٗ نے اس احتمال کو ختم کردیا۔ جَائَ الرَّکْبُ کُلُّہُم (قافلہ سارا آیا)۔ اس میں جو آنے کا حکم قافلہ پر لگایا گیا ہے اس میں یہ احتمال ہے کہ شاید پورا قافلہ نہ آیا ہو اور حکم اکثر افراد کے اعتبار سے لگایا گیا ہو۔ کُلُّہُم نے اس احتمال کو ختم کردیا۔
مؤکّد تاکید ہی کا دوسرا نام ہے اور مؤکَّد وہ پہلا لفظ ہے جس کی تاکید لائی گئی ہے۔
تاکید کی دو قسمیں ہیں: تاکید لفظی اور تاکید معنوی۔
۱۔ تاکید لفظی: پہلے لفظ کو مکرر لانا۔جیسے: جَائَ زَیْدٌ زَیْدٌ (زید ہی آیا)۔
۲۔ تاکید معنوی: نئے لفظ سے تاکید لانا۔ جیسے: جَائَ زَیْدٌ نَفْسُہٗ (زید ہی آیا)۔
قاعدہ: نسبت کی تاکید ِمعنوی کے لیے دو لفظ ہیں: نَفْسٌ اور عَیْنٌ اور دونوں کی ایسی ضمیر کی طرف اضافت ضروری ہے جو مؤکد کے مطابق ہو۔ جیسے: جَائَ زَیْدٌ نَفْسُہٗ/ عَیْنُہٗ، جَائَ تْ فَاطِمَۃُ نَفْسُہَا/ عَیْنُہَا۔
قاعدہ: اگر مؤکّد تثنیہ، جمع ہو تو نَفْسٌ اور عَیْنٌ کی جمع أَنْفُسٌ اور أَعْیُنٌ لائی جائے گی۔ جیسے: جَائَ الزَّیْدَانِ أَنْفُسُہُما، جَائَ الزَّیْدُوْنَ أَنْفُسُہُمْ۔
قاعدہ: شمول کی تاکید معنوی کے لیے چار لفظ ہیں: کُلٌّ، کِلَا، کِلْتَا، جَمِیْعٌ۔ جیسے: جائَ الْقَوْمُ