مذکر ہو تو فصل کے لیے أَیُّہَا اور مؤنث ہو تو أَیَّتُہَا لائیں گے۔ جیسے: یٰأَیُّہَا الرَّجُلُ! {یٰٓاَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ o}
الدرسُ الرَّابع والثَّلاثون
استغاثہ کا بیان
استغاثہ کے معنی ہیں فریاد کرنا اور مدد چاہنا۔ اور جس سے مدد چاہی جائے اس کو مُستغاث کہتے ہیں اور جس کے لیے مدد چاہی جائے اس کو مُسْتَغاث لہ کہتے ہیں۔ مستغاث بھی حقیقت میں منادیٰ ہی ہوتا ہے۔ البتہ اس پر لام استغاثہ مفتوح آتا ہے اور مستغاث لہ پر لام مکسور آتا ہے۔ جیسے: یَا لَلْقَوْمِ لِلْمَظْلُوْمِ (اے لوگو! مظلوم کی مدد کو پہنچو)۔
قاعدہ: منادی مستغاث مجرور ہوتا ہے۔ جیسے: یا لَلْقَوْمِ! (اے لوگو! مدد کو پہنچو)۔
ندبہ کا بیان
ندبہ کے لغوی معنی ہیں میت کی خوبیاں بیان کرکے رونا۔ اور اصطلاحی معنی ہیں دہائی دینا، حسرت وافسوس کرنا، مصیبت زدہ کا واویلا کرنا، مرنے والے کی خوبیاں یاد کرکے رونا۔ ندبہ کے لیے مخصوص حرف وا ہے اور یا بھی مستعمل ہے، اردو میں اس کا ترجمہ (ہائے!) ہے، جیسے: وَازَیْدَاہْ! (ہائے زید!)، واسیِّدَاہْ! (ہائے سردار!)، واحَسْرَتَاہْ! (ہائے افسوس!)، وامُصِیْبَتَاہْ! (ہائے مصیبت!)۔ اور پکارنے والے کو نادب اور جس کو پکارا جائے اس کو مندوب کہتے ہیں۔ مندوب بھی منادیٰ ہی ہوتا ہے۔