ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
نے ہمارے ہوش اڑادئیے کہ ابوجی کے دونوں گردوں نے کام چھوڑ دیا ہے۔اور ابوجی کو فوری طور پر ڈائلاسس کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹروں کے مشورے پر ہم ۲۶ جنوری۲۰۱۴ کوابو جی کو انسٹیٹیوٹ آف کڈنی ڈیزیز حیات آباد لے گئے جہاں پر ابو جی کو آئی سی یو میں داخل کردیاگیا جہاں آخر وقت تک زیر علاج رہے۔دوران علاج طلباء و علماء اور محبین کا ایک ہجوم روزانہ عیادت کیلئے ہسپتال تشریف لاتا رہا جس پر ڈاکٹر حضرات ابو جی سے مذاحا کہا کرتے تھے کہ آپ نے ہسپتال اور آئی سی یو جیسی حساس جگہ کوبھی مدرسہ بنایا ہوا ہے اس دوران رپورٹس کے اتار چڑھاؤ سے ہمارے حوصلے بھی بلند و پست ہوتے رہے لیکن ابو جی کی استقامت ان شدید تکالیف میں بھی مثالی رہی حالانکہ ڈاکٹروں کے مطابق ابو جی کے جسم کا کوئی بھی حصہ ایسا نہیں تھا جو متاثر نہ ہوا ہو۔ وفات سے ایک دن قبل انفیکشن بہت زیادہ بڑھ گیا تھا جس پر ابوجی پر غنودگی طاری ہو گئی لیکن اس حالت میں بھی مسلسل زبان پراوراد واذکار اوردرود شریف کا ورد جاری رہا۔بالاخرفراق کی گھڑی آن پہنچی اور۲۶ فروری ۲۰۱۴کو رات تین بجے کے قریب ابوجی ہم سب کوچھوڑ کر آخرت کے سفر پر روانہ ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ع عمر بھر کی بے قراری کو قرار آہی گیا آخر میں ابوجی کی بیماری اور وفات کے اس پر مہیب دورانیہ میں جملۂ شیوخ و اساتذہ، تلامذہ ، اقاربہ اور متعلقین کی مخلصانہ محبت ، خصوصا استاذ العلماء حضرت مولانا سمیع الحق صاحب کی ہر موقعہ پر سرپرستی ،حضرت مولانا انوار الحق صاحب کے اخلاص،مولانا مفتی ذاکر حسن نعمانی ،مولانا قاری مقبول احمدحقانی ، مخدوم زادہ حضرت مولانا راشد الحق سمیع صاحب و مولانا حامد الحق صاحب کی ہمدردانہ خدمت اور مولانا سلمان الحق صاحب و مولانا عرفان الحق صاحب کی والہانہ عقیدت سے تسوید اوراق نہ کروں تو میری نوائیں ادھوری اور دعائیں بے روح ہونگی۔اسی طرح میرے وہ طالب علم بھائی بھی خصوصی شکریے کے مستحق ہیں جنہوں نے زندگی بھر اور خصوصاً بیماری کے دوران ہسپتال میں ایک ماہ تک دن رات مسلسل بے لوث خدمت کی،مثلاً مولانا محمد اسرارابن مدنی، مولوی محبوب احمد غازی،مولانا شوکت علی،مفتی راحت علی حقانی، مولوی بیت اللہ، مولوی برہان، مولوی رحمت اللہ متقی، مولوی وزیرمحمد،مولوی ضیاء الرحمن وزیرستانی‘ مولوی محمد سیف،مولوی میاں محمد شاہ حسین ، کے نام قابل ذکر ہیں۔ میرے پاس وہ الفاظ نہیں جو اس عاجز کے عجز بیان کو اظہار اسلوب دے سکے۔ تاہم خدوند کریم اپنے پیاروں کی پیاری پیاری اداؤں کو زندہ و پائندہ رکھنے کے لیے ’’گلشن حقانیہ‘‘ کی اس حسین محفل کی اجھلی اجھلی اور دھلی دھلی فضاؤں کو تا قیا مت سلامت رکھے اور ہم سب کو اس رحمت کی گھٹاؤں سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ ٭ ٭ ٭