ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
حافظ عرفانِ حق و حافظ لقماں حسیب خونِ دل سے روتے ہیں ان کا سنی تنہا گیا آخری ان کا سفر یہ ہوسوئے خُلدِ بریں عین در عہدِ جوانی ہم سے وہ روٹھا گیا اک ہجوم صالحاں ان کے جنازے میں رہا اللہ اللہ کس ادا سے عالمِ بالا گیا اہل خانہ کو خداوندا تودے صبرِ جمیل ہرکسی کی آنکھ کا بے شک تھا وہ تارا گیا ان کی فرقت پر ہے نذرِ کرب و غم پیرِ و جواں ہائے فانی یاں سے سوئے سایہ طوبیٰ گیا __________________ فانی صاحب کی کون کون سی صفت کو بیان کیاجائے آپ مجسمہ مہروفا ، عاجزی و انکساری کی تصویر ، خلیق و ملنسار، چہرے پر سدا بہار مسکراہٹ ، درویش خدا مست ، سادگی اور بے نفسی کا مرقع ، تکلف سے کوسوں دور اپنی علمی ادبی دنیا میں گم ،اپنی ظرافت طبع اور بذلہ سنجی کی وجہ سے دارالعلوم کے اساتذہ اور تلامذہ میں مقبول ترین شخصیت تھے ان کو کوئی اجنبی دیکھتا تو ظاہری وضع قطع سے ان پر کوئی بھی یہ گمان تک نہ کر پاتا کہ یہ جامعہ کے عظیم استاذ ،نامور ادیب اور اردو ، عربی ،فارسی اور پشتو چاروں زبانوں کے بڑے پائے کے شاعر ہیں‘ آپ 1955ء میں دارالعلوم حقانیہ کے قدیم جلیل القدر استاذ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحلیم صاحب کے ہاں پیدا ہوئے مڈل تک تعلیم اپنے گائوں زروبی میں حاصل کرنے کے بعد موضع ٹوپی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا ۱۹۷۰ء دارالعلوم حقانیہ سے باقاعدہ دینی تعلیم کا آغازکیا ‘ابتدائی درجات سے لیکر دورۂ حدیث تک تعلیم یہیں مکمل کرنے کے بعد ۱۹۷۸ء کو فارغ التحصیل ہوئے طالبعلمی کے دوران دورۂ تفسیر ۱۹۷۶ء میں معروف مفسر قرآن حضرت مولانا عبدالہادی شاہ منصوری سے پڑھی فراغت سے فوراً بعد آپکا تقرر دارالعلوم حقانیہ میںیکم شوال ۱۳۹۸ھ کو ۲۵۰ روپیہ مشاہر ہ پر ہوا ۔ درس نظامی کے ابتدائی کتابوں سے لیکر منتہی کتابوں تک جملہ علوم وفنون کی کتابیں آپ نے اس عرصے میں پڑھائیں گزشتہ تین برس سے آپ دورۂ حدیث شریف میں بھی پڑھانے پر مامور تھے پڑھانے کے ساتھ ساتھ شعر و شاعری اور ادبی دنیا میں بھی آپ اس وقت ایک سند کی حیثیت رکھتے تھے ۱۹۹۴ء میں حج کی سعادت پائی ۔موصوف کا جنازہ جامعہ دارالعلوم حقانیہ میں دن گیارہ بجے ہزاروں علماء ، طلباء اور صلحاء کی موجودگی میں نائب مہتمم حضرت مولانا انوارالحق کی اقتداء میں پڑھا گیا‘ اس سے قبل شیح الحدیث مولانا سید شیر علی شاہ ،پیر طریقت مولانا عزیز الرحمن حقانی ہزاروی ،معروف ادیب مولانا عبدالقیوم حقانی ،مولانا حامد الحق حقانی نے تعزیتی کلمات پیش کیے اور پھر انکا جسد خاکی تدفین اور جنازے کیلئے اپنے گائوں زروبی روانہ کیا گیا جہاں علاقہ بھر کے ہزاروں لوگوں نے تین بجے قطب دوراں شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی محمد فرید ؒ کے فرزند مولانا حسین احمد کے قائم کردہ مدرسہ دارالعلوم صدیقیہ کے جوار میں دوبارہ جنازہ پڑھا انکی خواہش پر انہیں اپنے والد کے پہلومیں ہزاروں اشکبار آنکھوں کی موجودگی میں سپرد خاک کیا گیا۔ اللھم اغفرہ وارحمہ واجعل قبرہ روضۃ من ریاض الجنۃ آمین