ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
عیادت کیلئے رابطے کر رہے ہیں اندرون ملک سے روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں لوگ مجھ ناچیز کی عیادت کیلئے آ رہے ہیں پھر فرمایا کہ میں نے اپنے آپ سے عہد کررکھا ہے کہ مرتے دم تک حقانیہ سے وابستہ رہوں گا میرے والد صدر صاحب کی رحلت بھی حقانیہ میں ہوئی اور میں بھی جب تک بدن میں روح ہے اس سے جدا نہیں ہوسکتا۔ میرے والد (حاجی )صاحب کے بارے میں فرمایا یہ تو ہمارے بڑے مہربان شخصیت ہے ہر ماہ جب ہمارے ہاتھ بحرالکاہل سے زیادہ ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں تو یہ ہمارے ہاتھ کو گرم (ماہوار تنخواہ کی طرف اشارہ ہے )کر دیتے ہیں۔والد صاحب نے فانی صاحب کو ہاتھ میں ربیع الاوّل کی تنخواہ کا لفافہ تھمایا تو انہوں نے کہا یہ میرے لیے لینا جائز ہوگا اس پر میں نے عرض کیا کہ آپ بیمار ہیں تدریس سے برطرف تو نہیں ہوئے یہ آپ کا حق ہے یہ ان کی حزم و احتیاط تھی ۔ ع خد ا رحمت کند ایں عاشقاں پاک طینت را یاد رہے کہ دارالعلوم کی تنخواہ انتہائی قلیل ہے دوسری طرف فانی صاحب کو ہر جگہ سے بڑی بڑی تنخواہوں کی پیش کشیں ہوئیں لیکن انہوں نے دارالعلوم کی صحبت کو دنیا و مافیہا پر ترجیح دے کر ثابت کر دیا کہ دنیا کے مال و زر کی وقعت ان کی نظر میں ہیچ ہے ’’وما ھذہ الحیوۃالدنیاالا لہوولعب‘‘ اس آیات پر ان کا عقیدہ اور عمل یکساں تھا اسی مجلس عیادت میں دورانِ گفتگو احقر کو مخاطب کر کے کہا کہ دل چاہتا ہے کہ حضرت بانیؒ دارالعلوم حقانیہ سے لیکر دارالعلوم حقانیہ کے ادنیٰ خادموں تک سب کی تاریخ مرتب کروں اور پھر وہ یادیںجو دارالعلوم سے وابستہ ہیں انہیں بھی علیحدہ رقم کروں، فرمایا کہ اس پر کام شروع کر دیا ہے جس کا نام ہو گا ’’داستانِ دل کشا درزمانِ ابتلا‘‘میں نے عرض کیا کہ آپ کو بیماری میں سخت تکلیف لاحق ہے زیادہ بولنا اور لکھنا آپ کی صحت کیلئے صحیح نہیں ہے ہم بھی زیادہ دیر بیٹھیں گے تو آپ کو تکلیف ہو گی ا سپر کہا کہ نہیں آپ کے آنے سے میری کتاب کی پانچ صفحات اور بھی بڑھ گئے ہیں مجھے تاکیداً کہا کے آپ کی شادی پر میں نے سہرا لکھا تھا اسی طرح آپ کے بھائی محمد عمیر الحق کی شہادت پر مرثیہ لکھا ہے یہ سب اور اس کے علاوہ اور کچھ یادیں ہوں تو ان سب کو لکھ کر اپنے سوانحی احوال سمیت مجھے جلد از جلد بھیج دیں تا کہ میں اپنی اس کتاب کو مکمل کر کے چھپوا سکوں۔ قارئین کرام دیکھئے ایک شخص بستر مرگ پر ہے اسے دنیا کی فکر نہیں اگر فکر ہے تو وہ لکھنے پڑھنے اور مدرسہ کی ہے یہی فکر انشاء اللہ اب موصوف کو برزخی اور اخروی زندگی میں رفع درجات پر متمکن کر دے گی اگرچہ ان کی زندگی میں تو ان کے فرمان پر عمل کرنے کا موقع نہ مل سکا تاہم آج ان پر تعزیتی مضمون قلمبند کرتے ہوئے یہ سہرا اور مرثیہ نذر قارئین ہے جوکہ فانی صاحب کی ہم اصاغر کے ساتھ محبت خلوص اور حددرجہ شفقت کے بین ثبوت ہیں۔ ع آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے