ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
دارالعلوم حقانیہ میں آمد: آپ کا دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں داخلے کا سبب یہ بنا کہ آپ اپنے چھوٹے بھائی سید فرمان اللہ صاحب ؒ کو مدرسہ میں داخل کرنے کیلئے لائے تھے‘ جب حضرت عبدالحق ؒسے ملاقات ہوئی توانہوں نے صر ف اتنا کہا: آپ بھی یہاں داخل ہوجائیں۔آپ نے وہ بات بلاچوں و چرا قبول کی اور دورہ حدیث میں داخل ہوگئے‘ حالانکہ آپ نے اس سے قبل حدیث شریف کی کتابیں مختلف جگہوں سے پڑھی تھیں اور باقاعدہ دورہ حدیث کی کتب دارالعلوم حقانیہ کی قدیم مسجد میں تھی‘ وہاں سے ۱۹۵۱ء میں سند فراغت حاصل کی۔ آپ کا شمار دارالعلوم حقانیہ کے اولین طلباء میں ہوتا ہے۔ آپ کے دورہ حدیث کے ساتھی مولانا بشیر احمد صاحب موضع اُچ ضلع دیر فرماتے ہیں کہ بادشاہ صاحب طالب علمی میں بھی نہایت پرہیزگار وروزہ داراورتہجد گزار تھے۔ وہ فرماتے تھے کہ ہم چھٹی کے دن اکثر بادشاہ صاحب کے ہاں رات رہتے اورواپسی پر ان کی والدہ محترمہ ہمیں جوار کی روٹی وغیرہ کپڑے میں باندھ کر دیتیں اور دعائوں کا کہتی تھیں۔ آپکا عقدِ نکاح ۱۹۵۲ء میں چچا کی بیٹی سے ہوا۔ آپکواللہ تعالیٰ نے تین بیٹوں اور بیٹیوں سے نوازا۔بادشاہ صاحب فرمایا کرتے تھے کہ میں اپنی شادی کا پیغام دینے گیا تو سب سے پہلے (سائیکل پر بیٹھ کر )فخر کشمیر حاجی محمد امین صاحب کے پاس گیا تھا پھر دیگر مشائخ کے پاس گیا ‘ میری شادی کے پہلے مہمان بھی حاجی محمد امین صاحب تھے۔ بادشاہ صاحب اور علم طب: آپ نے کچھ علم طب بھی سیکھا۔ نوشہرہ کینٹ میں حکیم رفیع الدین کے بڑے بھائی حکیم الدین حاذق طبیب تھے۔ آپ نے اپنے ہاتھ سے قرآن پاک بھی لکھا جواب بھی موجود ہے۔ آپ نے دیکھا کہ علاقے کہ لوگ دین کے حاصل کرنے سے محروم ہیں تو اپنے ہی علاقے میں ۱۹۸۳ء کو حضرت عبدالحق ؒکے دست مبارک سے دارالعلوم الاسلامیہ کی بنیاد رکھوائی ‘ اس مدرسہ کو حقانیہ ثانی کہتے تھے۔ مجھے یاد آیا کہ شیخ الاسلام قاری محمد طیب ؒ دارالعلوم حقانیہ جب تشریف لائے تو خطاب کے دوران حقانیہ کو دیوبند ثانی ؒکہاتھا۔ اسی دیوبندثانی کے بانی نے دارالعلوم اسلامیہ کو حقانیہ ثانی کا لقب دیا یعنی یہ مدرسہ دارالعلوم دیوبند کا سگا پوتا ہوا۔ یاداشتیں: ٭ آپ فرماتے تھے کہ میرے پائوں کا سائز اور شیخ الحدیث مولانا نصیر الدین غورغشتوی ؒ کے پائوں کا سائز ایک تھا۔ وہ جب بھی دارالعلوم حقانیہ آتے توان کی خدمت میری ذمہ داری ہوتی اور جب وہ قضائے حاجت کے لئے جاتے تو میرے جوتے پہن لیتے۔ ٭ ایک مرتبہ فرمایا کہ میرا موضع پبی میں کوئی ضروری کام تھا میری سائیکل خراب تھی‘ تو میں نے عاریتاً کسی