ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
فانی ؔ موجودہ اردو ،پشتو اور فارسی ادب میں منفرد حیثیت کے حامل ہیں،انہوں نے اس فن میں کچھ نئے تجربات بھی کیے ہیں ،جسے کسی ایسے نقاد کی ضرور ت ہے جو مرثیے کے فن کے رموز و تقاضوں سے آشنا ہو۔فانی ؔ کی غزل حافظ کی طرح ابہام سے عاری ہے اور اس کی تان محبت کے دلفریب جذبوں پر ٹوٹتی ہے۔ازلی محبوب کے حوالے سے فانیؔ نے جن رومانوی جذبوں کا احاطہ کیا ہے ‘اس سے اردو غزل کاکینوس نکھر کر سامنے آیا ہے‘علاوہ ازیں فانیؔ کا اسلوب اپنی ایک الگ شناخت بھی سامنے لے کر آتا ہے۔ فانیؔ صاحب نے اردو کے نعتیہ ادب کو توانائی بخشی،غزل کے رموز وعلائم کو نعتیہ شاعری میں سمو کر انھوں نے تغزل کی عجب کیفیات پیدا کیں۔ ان کے ہاں موضوع کی یکسانیت نہیںبلکہ مضامین کا تنوع ہے۔نظم ہا ئے تہنیت،کتب پر ان کے منظوم و منثور تبصرے، ادب کا حسن ہیں،جسے کسی محقق و نقاد کا انتظار رہے گا،اردو ادب تقاضا کرتاہے کہ فانیؔ صاحب کے احوال و آثار پر تحقیق کی جائے اور ترتیب و تدوین کے عمل سے گزار کر ان کے آثارشائع کرکے عام کیا جائے۔ مولانا رومؒ نے فرمایا تھا کہ میری موت کے بعد مجھے قبر میں تلا ش مت کرو ،کہ ’’در سینۂ عارف مزارِ ماست‘‘بعینہ فانی صاحبؔ بھی اسی طرح دلوں میں زندہ رہیں گے: دیۂ سعدی و دل ہمراہِ تست تا نہ پنداری کہ تنہا می روی ٭ ٭ ٭ ہم کو جینے کی جوحسرت تھی بڑی مہنگی پڑی اس غم و اندوہ میں یہ زندگی بڑی مہنگی پڑی اک فریبِ آرزو ہے یہ جہانِ رنگ و بُو نقشِ فانی کی بظاہر دل کشی مہنگی پڑی آج انساں کی تباہی میں ہے اس کا اپنا ہاتھ اس نئی تہذیب کی یہ روشنی مہنگی پڑی (فانی)