ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
آہ ! ادیب العصر شیخ الحدیث علامہ ابراہیم فانی ؔ کس قلم کس زبان سے یہ لکھوں اور یہ کہوں کہ آج دنیا ئے اسلام کے عظیم مایہ ناز مفکر ادیب ِ بے مثل حضرت العلامہ ابراہیم فانی دارفانی سے رحلت فرماگئے ہیں وہ عظیم فقیہ بحرِعمیق ،نکتہ دان، ادیب ،بے بدل ،عالم بے مثل دارالعلوم حقانیہ میں بہت ہی عظیم علمی وتصنیفی خدمات تاریخِ عالم پر رقم فرماکر الوداع فرماگئے ؎ کلیوں کو میں خونِ جگر دے کے چلاہوں صدیوں مجھے گلشن کی فضا یاد کرے گی حضرت العلامہ ابراہیم فانی ؔ دارالعلوم حقانیہ کے ایک مایۂ ناز محدث وفقیہہ اور میدان شعر وسخن وادب کے بہترین شہشوار ،عصرِحاضر کے بے مثال مفکر ،مدیر ناظم وناثر، نقی وتقی تھے ۔عصریِ علوم کی سطح پر آجاتے تو آج ’’پی ایچ ڈی‘‘ڈگری کیساتھ کسی بین الاقوامی یونیورسٹی میں پروفیسر کے عہدہ پر ہوتے لاکھوں میں تنخواہ لیتے بعدالوفات صدارتی سطح تعزیتی کانفرس کے انعقاد ہوتے اس کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے سلسلے درسلسلے چلتے مگر اس درویش خدامست ،جامع محاسن شتٰی نے عیش وعشرت کی زندگی کو لات ماری تھی ۔امیرالمومنین فی التفسیر فنا فیِ القرآن دنیا ومافیھا سے بے خبر رموزقرآن سے باخبر شخصیت اپنے دور کے قطب الارشاد شیخ القرآن علامہ عبدالھادی شاہ منصوری ؒ بڑے سوز کے ساتھ فرمایا کرتے تھے ؎ در لباس فقر دارم تاج سلطانی بسر ہیچ حاجت نیست مارا باحصول سیم و زر شال زربفت مبارک تجھے آے دولتمند ہم کوکمبل میں دوشالے کا مزا ملتا ہے مسند شاہی کی حسرت ہم فقیروں کو نہیں فرش ہے گھر میں ہمارے چادر مہتاب کا فقیری جس نے کی گویا کہ اس نے بادشاہی کی جسے ظلِ ہما کہتے ہیں درویشوں کا کمبل ہے شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال اس کا نقشہ کچھ یوں کھینچتے ہیں ؎ کہاں سے تونے اے اقبال سیکھی ہے یہ درویشی کہ چرچا بادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا مولانا الطاف حسین حالیؔ نے بھی کمال کی حد کرتے ہیں … جچتا نہیں نظروں میں یاں خلعتِ سلطانی کملی میں مگن اپنی رہتا ہے گدا تیرا حضرت العلامہ ابراہیم فانی ؔ نے دارالعلوم حقانیہ کی چٹائی پر اپنی قیمتی زندگی کی لیل ونہار حدیثِ یا رکی تکرار وخدمت کیلئے وقف فرمائی تھی … ماہر چہ خواندہ اہم فراموش کردہ ایم الاحدیث یار کے تکرار مے کنم