ماہنامہ الحق مارچ اپریل مئی 2014ء |
امعہ دا |
|
دارالعلوم سے فراغت کے سال ۱۹۸۵ء میں بندہ نے اخبارات کیلئے کالم لکھنا شروع کئے ۱۹۸۱ء میں میرا پہلا کالم مرحوم حکیم رفیع الدین کی سفارش سے ترجمان اسلام میں شذ رات کامل کے عنوان سے چھپ گیا تھا ۔ حضرت فانی دارالعلوم کے اندر استاد تربیت ، ادب و ذوق تھے تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا ، تخلیقی کاموں کی حوصلہ افزائی اور پھر اسے جلا بخشنے کے لئے مکمل تعاون استاد محترم کا طرہ امتیاز تھا وہ خصوصیات جو میرے استاد محترم میں موجود تھیں شاید بہت کم حضرات میں دیکھنے کو ملتی ہیں مدارس میں اس جیسے نابغہ لوگ اوپری جامعات میں ڈھونڈتا جوے شیر لانے کے برابر ہے ۔ حضرت فانی ؒ نے الحق جیسے مشہور زمانہ دینی و علمی مجلے میں اپنے قارئین کے لئے ایک نیا فورم ایک نیا وجود تشکیل دیا تھا جس کا کوئی رسمی ڈھانچہ تو نہیں تھا مگر عقیدتمندوں کی پسند و ناپسند کی دنیا تو اور ہوتی ہے ۔ ۱۹۸۳ء میں دوران طالبعلمی استاد محترم حضرت مولانا عبدالحلیم زروبی کی یاد میں ایک پو را اخباری صفحہ روزنامہ وحدت کیلئے تحریر کیا تو فانی صاحبؒ نے شاباش دیتے ہوئے فرمایا تم نے اپنا حق ادا کیا اور فرمایا محمد رحیم حقانی صاحب جن کتابوں کے مطالعے کو تم خلاف ادب اور خلاف تقویٰ سمجھتے تھے یہ ان ادبی علوم کے مطالعے کا نتیجہ ہے کہ آج تم نے اخبار کا پورا حصہ ہی سفینہ تحریر کر ڈالا ۔ درحقیقت فانی صاحب اپنی ذات میں ایک انجمن تھے طلبہ کے ساتھ شفقت و محبت اور حسن تربیت ان کا طرہ امتیاز تھا وہ علماء شخصیات کے حوالے سے لکھتے تھے اور منظوم و منشور مراثی سے انہیں الوداع بھی کہتے اور لکھتے تھے وہ زہین ترین بابغہ انسان تھے مروجہ علوم اور معلومات کے حوالے سے لکھ بھی سکتے تھے مگر آپ اس حوالے سے فرمایا کرتے تھے کہ مجھے کتابوں کی چوری اور کتابوں سے چوری کا طریقہ نہیں آتا میں جو کچھ ہوں سب کے سامنے ہوں میرا مشن رضائے الہی کی خاطر خدمت انسانیت ہے اور اس کے لئے رجال کا تیار کرنا ہے گوکہ حضرت فانی ؒ ہم میں موجود نہیں مگر دینی اور عصری سماج کے اندر ان کا تربیت یافتہ ایک عظیم اثاثہ موجود ہے اور یہ صدقہ جاریہ تا روز محشر انشاء اللہ ان کی اخروی نجات کا ذریعہ اور وسیلہ رہے گا۔ ٭ ٭ ٭ بدلیں گے انداز تیرے یہ کبھی سوچا نہ تھا دل نے اے جانِ تمنا یہ ستم دیکھا نہ تھا (فانیؔ)