رسالت کی علامت ہے، عظمت سے اطاعت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے،اورانسان کے اندر اللہ نے جواطاعت کا مزاج رکھا ہے اس کا رخ درست ہوجاتا ہے، آگے وارننگ دی گئی ہے:
{أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُکُمْ وَأَنْتُمْ لاَ تَشْعُرُوْنَ۔} (۱)
’’کہیں تمہارے سب کام بیکار چلے جائیں اور تمہیں احساس بھی نہ ہو۔‘‘
آیت کے اس ٹکڑے میں تمام اعمال کے ضائع جانے کا خطرہ ظاہر کیا جارہا ہے اوریہ کفروشرک کے بعد ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ تیز گفتگوکردینا اوربلند آواز سے بولنا اگرچہ سوئے ادب کی اس حد میں نہیں ہے کہ کفر تک بات پہونچ جائے لیکن یہ اس کا پیش خیمہ ضرور ہے، ہلکی سی بھی بے ادبی ہوئی اورطبیعت اس میں رنگ گئی توآہستہ آہستہ بات اس حد تک پہونچ جاتی ہے جہاں کفر کے حدود شروع ہوجاتے ہیں اوربے ادبی کی وہ شکل سامنے آجاتی ہے کہ پھر ایمان باقی نہیں رہتا،اسی لیے ’’وَأَنْتُمْ لاَ تَشْعُرُوْنَ‘‘ فرمایا، چونکہ سب کچھ آہستہ آہستہ ہوتا ہے اس لیے آدمی محسوس بھی نہیں کرپاتا اوروہ کفرکی سرحدوں میں داخل ہوجاتا ہے، یہاں پہنچ کراس کے تمام اعمال اورساری نیکیاں بیکار ہوجاتی ہیں ۔
دل کو ٹٹولنے کی ضرورت ہے، افکاروخیالات کی نگہداشت ضروری ہے، اعمال کا جائزہ لیتے رہنا لازم ہے،کہیں کوئی ایسی شکل سامنے نہ آنے پائے کہ اللہ اوراس کے رسول پرکسی چیز کومقدم کیا جانے لگا ہو، اگرایسا ہے تویہ خطرہ کی علامت ہے۔
k
------------------------------(۱) سورۂ حجرات/۲