’’اور نہ عورتیں عورتوں کی ہنسی کریں ، ہوسکتا ہے وہ ان سے بہترہوں ۔‘‘
آیت کا یہ حصہ خواتین کے لیے خاص طور پر قابل غور ہے، سماج میں بگاڑ کا ایک بڑا سبب ان کی بے احتیاطی ہے، جس طرح مردوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ صنف نازک کا خیال رکھیں ، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک سفر کے موقع پر فرمایا تھا: ’’رفقاً بالقواریر‘‘(۱) (ان آبگینوں کا خیال رکھو، کسی کو تکلیف نہ پہنچ جائے)، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے بڑھ کر عورتوں کو حق دینے والا کون ہوسکتا ہے؟ اسی طرح عورتوں کو بھی اس کی تلقین کی گئی ہے کہ وہ خود بھی حق شناس اور احسان شناس بنیں ، ایک حدیث میں ان کے جہنم میں جانے کے دوبنیادی اسباب بیان کیے گئے ہیں ، ایک طعن کی کثرت اور دوسرے شوہروں کی احسان ناشناسی۔(۲)
آیت شریفہ میں بھی بطور خاص عورتوں کو اسی کی تلقین کی جارہی ہے کہ وہ ایک دوسرے کا مذاق نہ اڑائیں ، اور یہ بات تو کس قدر بے شرمی اور بے احتیاطی کی ہے کہ وہ مردوں کا مذاق بنائیں ، اگر وہ شوہر یا باپ ہے تو یہ احسان ناشناسی کی انتہا ہے اور اگر غیر ہے تو بے احتیاطی کے ساتھ بے حیائی بھی ہے۔
’’لمز‘‘
اسی آیت شریفہ میں دوسری جس چیز کی ممانعت کی جارہی ہے وہ ’’لَمْز‘‘ ہے، ’’لَمْز‘‘ ہر اس کلام یا اشارہ کو کہتے ہیں جس میں مخاطب کی مذمت کی جارہی ہو، چِڑھایا جارہا ہو، او رڈرایا دھمکایا جارہا ہو، کہنے والا جس چیز کو خود معیوب سمجھتا ہو، وہ اس چیز کو مخاطب کی طرف منسوب کرے، وہ عیب مخاطب کے اندر موجود ہو تو بھی اس کا
------------------------------
(۱) مسند الحمیدی بحوالہ مسند انس بن مالکؓ/۱۲۶۲
(۲) صحیح بخاری، باب کفران العشیر/۲۹و ۱۰۵۲، نسائی، باب قدرالقراء ۃ فی صلاۃ/۱۵۰۴