اپنے بلند اخلاق و کردار سے زہد و پرہیزگاری سے اور خلوص و محبت سے انھوں نے دلوں کو فتح کرلیا، چونکہ دین کی حامل وہ ہی جماعت تھی جو دنیائے اسلام کی معلم بنی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو خاص امتیاز بخشا تھا تاکہ وہ آپ صلی اﷲعلیہ وسلم سے دین سیکھ کر اور آپ کے رنگ میں رنگ کر دنیا کے مختلف علاقوں میں دین کی مکمل ترجمانی کرسکیں ، پھرآگے اس کے بارے میں قرآن مجید کی گواہی ہے کہ :
{أُولٰـئِکَ ھُمُ الرَّاشِدُوْنَ۔}
’’ یہی لوگ راہ ہدایت پر ہیں ۔‘‘
دوسری جگہ ان کے بارے میں یہ اعلان بھی ہوچکا ہے کہ ’’رضی اﷲ عنہم و رضوا عنہ‘‘ (اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے)۔
بعد میں آنے والوں کے لیے خطرہ
آیت کے آغاز میں ایک بڑے خطرہ سے آگاہ کیا گیا تھا کہ اگر رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کو تم اپنی مرضی پر چلانا چاہو گے تو پورا نظام بگڑ کر رہ جائے گا، مگر اس کے آگے ہی یہ وضاحت کی جارہی ہے کہ تم پر اللہ کا بڑا فضل یہ ہے کہ تم اس سے دور رہے، اللہ نے خیر کو تمہارے دلوں میں پیدا فرما دیا ہے، اور رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کی اطاعت تمہارے مزاج میں داخل کردی ہے، اس سے ایک اشارہ یہ ملتا ہے کہ حضرات صحابہ کے دور میں تو وہ خطرہ بہت کم تھا، اس لیے کہ وہ اطاعت میں ڈھلے ہوئے تھے، لیکن یہ خطرہ زمانۂ نبوت سے دوری کے ساتھ ساتھ بڑھتا جائے گا، گرچہ آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم موجود نہ رہیں گے لیکن لوگ آپ صلی اﷲعلیہ وسلم کے ارشادات کو اپنے مفاد کے مطابق کرنے کی کوشش کریں گے، گویا کہ حدیث کو اپنی مرضی کے مطابق بنائیں گے، اور اس کی بیجا تاویلیں کریں گے، اس کی مثال ایسی