آپس کے جھگڑوں کا وبال
آپس کے جھگڑے خواہ کتنے ہی معمولی کیوں نہ نظر آتے ہوں ، اسلام میں ان کو بدترین گناہوں میں شمار کیا گیا ہے، ایک حدیث میں ان کو ’’حالقہ‘‘(۱)سے تعبیر کیا گیا ہے، حالقہ استرے کو کہتے ہیں ، جس طرح استرے سے سر کے بال صاف ہوجاتے ہیں ، اسی طرح آپس کے جھگڑوں سے دین آہستہ آہستہ نکل جاتا ہے، جو اعمال کیے گئے ہیں اس کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ اعمال رائیگاں نہ چلے جائیں ، اس لیے کہ نزاع میں عام طور پر آدمی اپنی زیادتی محسوس نہیں کرپایا، وہ فریق ثانی پر ظلم کرتا ہے، لیکن اپنے آپ کو مظلوم سمجھتا ہے، دوسرے کا حق مارتا ہے، اس کے ساتھ ناانصافی کرتا ہے، لیکن خود انصاف کی دہائی دیتا ہے، اس کے اس ظلم و زیادتی کے نتیجہ میں حرماں نصیبی اس کا مقدر بنتی ہے، دنیا میں وہ اس کو اپنی عزت کا سوال سمجھتا ہے، لیکن آخرت میں اس سے بڑھ کر مفلس کون ہوگا کہ نیکیوں کے باوجود اس کے بارے میں جہنم کا فیصلہ کردیا جائے۔
جھگڑوں کی خاصیت اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کمزوری پیدا ہوجاتی ہے، دشمن کو غالب آنے کے مواقع حاصل ہوجاتے ہیں ، قرآن مجید میں ارشاد ہے: {وَلاَ تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْھَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوْا}(۲) (اور آپس میں جھگڑا مت کرو (ورنہ) تو تم ناکام ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور ثابت قدم رہو۔)
صلح صفائی کا حکم
جس طرح خود جھگڑوں میں پڑنا باعث خفت و ذلت ہوتا ہے اور اس سے دور رہنے کی تلقین کی گئی ہے، اسی طرح اہل ایمان کو یہ حکم بھی دیا گیا ہے کہ جھگڑے کے
------------------------------
(۱) ابوداؤد، باب فی اصلاح ذات البین /۴۹۲۱، ترمذی، باب اصلاح ذات البین/ ۲۶۹۷ـ۲۶۹۸ (۲) سورۂ انفال/۴۶