عزت کا معیار
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسی لیے اس کو اصل معیار شرافت قرار دیا ہے، اور قرآن مجید نے اسی کو عزت کی کسوٹی بتایا ہے، علامہ سید سلیمان ندوی سیرۃالنبیؐ میں تقویٰ کے مضمون کو ان الفاظ پر ختم فرماتے ہیں :
’’اسلام میں تقویٰ کو جو اہمیت حاصل ہے، اس کا اثر یہ ہے کہ تعلیم محمدی (صلی اﷲ علیہ وسلم) نے رنگ، وطن، خاندان، دولت، حسب نسب، غرض نوع انسانی کے ان صدہا خودساختہ اعزازی بتوں ، مرتبوں کو مٹا کر صرف ایک ہی امتیازی معیار قائم کردیا، جس کا نام تقویٰ ہے، اور جو ساری نیکیوں کی جان ہے، اور اس لیے وہی معیاری امتیاز بننے کے لائق ہے، چنانچہ قرآن پاک نے بآواز بلند یہ اعلان کیا: {إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اﷲِ أَتْقـٰکُمْ} (تم میں خدا کے نزدیک سب سے معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ تقویٰ والا ہے۔)(۱)
آیت شریفہ کا اختتام اللہ تعالیٰ کی جن صفات پر ہورہا ہے، اس سے یہ حقیقت واضح کی جارہی ہے کہ تقویٰ دل کے اندر کی ایک کیفیت ہے، ظاہر میں انسان کتنے ہی تقویٰ کا اظہار کرے مگر اﷲ کے نزدیک وہی ظاہر معتبر ہے جو باطن کا ترجمان ہو، اور وہ دل کی گہرائیوں سے واقف ہے، باریک سے باریک تر اور مخفی سے مخفی تر اشیاء اور حقائق کو وہ جانتا ہے، دنیا میں ایک انسان انسانوں کو دھوکہ دے سکتا ہے، مگر کوئی اپنے مالک کو دھوکہ نہیں دے سکتا، صاف صاف کہہ دیا گیا:
{إِنَّ اﷲ َ عِلِیْمٌ خَبِیْرٌ}
’’بلاشبہ اللہ خوب خوب جاننے والا، پوری خبر رکھنے والا ہے۔‘‘
------------------------------
(۱) سیرۃالنبی۵/۲۹۰