فرمائیں گے اوراگرقدرت کے باوجود اس نے مدد نہ کی تواللہ تعالیٰ دنیاوآخرت میں اس کی پکڑکریں گے)۔
حدیث سے معلوم ہوا کہ اگرکبھی ایسی مجلسوں میں شرکت ہو بھی جائے اور کسی کی غیبت کی جائے تو شریک ہونے والے کی ذمہ داری ہے کہ وہ جس کی غیبت کی جارہی ہے اس کا دفاع کرے، یہ اس کے لیے بڑے اجر کی بات ہے کہ وہ اس کی عزت رکھ رہا ہے اوراس مجلس میں اس کوذلیل ہونے سے بچا رہا ہے، اللہ تعالیٰ بھی دنیا وآخرت میں اس کی مدد فرمائیں گے اس کو عزت بخشیں گے اوروہ ذلت سے محفوظ رہے گا، اس کے برخلاف اگروہ مجلس میں پوری طرح شریک رہا، غیبت سنتا رہا اوراس پرذرا بھی ناپسندیدگی ظاہر نہ کی تواس کے لیے وبال ہے، اس کا خطرہ ہے کہ وہ دنیاوآخرت کی ذلت اٹھائے ۔
اسی آیت میں غیبت کی برائی مزید وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے، اوراس میں نفسیات کوا پیل کی جارہی ہے ارشاد ہوتاہے:
{أَیُحِبُّ أَحَدُکُمْ أَنْ یَأْکُلَ لَحْمَ أَخِیْہِ مَیْتاً فَکَرِہْتُمُوْہُ}(۱)
’’کیا تم میں کسی کو اچھا لگے گا کہ اپنے مردار بھائی کا گوشت کھائے، اس سے تو تم گھن کرو گے ہی ۔‘‘
غیبت کا ایک علاج
عجیب بات یہ ہے کہ عام طورپرمجلسوں میں غیبت کا سلسلہ جب چلتا ہے توکسی کوخیال بھی نہیں رہتا اوراس میں مزہ آنے لگتا ہے، آیت شریفہ میں اس کا ایک نفسیاتی علاج بھی کیاگیاہے، غیبت کے موقع پر اگریہ تصورکرلیا جائے کہ جس کی غیبت کی جارہی ہے درحقیقت اس کاسڑا ہوا گوشت کھایاجارہا ہے تواس تصور سے ہی
------------------------------
(۱) سورۂ حجرات/۱۶