صلح کرانے کے آداب
آگے جو بات کہی جارہی ہے وہ صرف اسلام ہی کے متوازن عادلانہ نظام کا ایک حصہ ہے، دوسری جگہ اس کا تصور بھی مشکل ہے، طاقت سے ایک فریق کو روکنے کے باوجود اصلاح کی دوسری کوشش کا حکم دیا جارہا ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب قوت کے استعمال میں بھی اعتدال و توازن قائم رہے، سب سے مشکل ترین کام ہے، آدمی خلاف ہوتا ہے تو دشمنی کے سارے حدود پار کرنے لگتا ہے، چاہتا ہے تو محبوب کی خامیاں خوبیوں کی شکل میں اس کو نظر آتی ہیں ، اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ :
’’أحبب حبیبک ھونا ما عسی أن یکون بغیضک یوما ما، وابغض بغیضک ھونا ما عسی أن یکون حبیبک یوما ما‘‘(۱) (محبوب سے محبت کرو تو بھی اعتدال کے ساتھ، ممکن ہے کہ کسی دن وہ تمہارا مبغوض بن جائے، نفرت کرو تو بھی توازن کے ساتھ، ہوسکتا ہے کہ وہ کسی دن تمہارا محبوب بن جائے۔)
دو فریقوں میں ثالثی کرنے والوں کو یہ بنیادی حکم ہے کہ اگر ایک فریق بات نہیں مانتا اور وہ ظلم پر کمربستہ ہے، اس کو بہ زورِ طاقت ظلم سے روک دو، لیکن طاقت کے استعمال میں توازن قائم رہے، اصلاح کی کوشش ابھی ختم نہیں ہوئی، طاقت کے زور پر سہی، جب ایک فریق جھک گیا اور زیادتی سے باز آگیا تو اب دوبارہ دونوں فریقوں کو جوڑنے کی کوشش کرو اور دلوں کو ملانے کا کام کرو، ارشاد ہوتا ہے:
{فَإِنْ فَآئَتَ فَأَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوْآ}(۲)
پس اگر وہ جھک جاتا ہے تو پھر دونوں میں برابری سے صلح کرادو
------------------------------
(۱) ترمذی، باب ماجاء فی الاقتصاد فی الحب والبغض/۲۱۲۸، مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الاوائل /۱۴۴ (۲) سورۂ حجرات/۱۱