اور ایمان چونکہ احسان خداوندی کا تذکرہ ہے، اس لیے خود ان کے اپنے خیال کے مطابق یہ کہا جارہا ہے اور اگر تم اپنے آپ کو صاحب ایمان سمجھتے ہو اور اگر تم اپنے اس خیال میں سچے بھی ہو تو یہ سمجھ لو کہ یہ تم پر اللہ کا احسان ہے کہ اس نے توفیق دی، دل رحمن کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں ، وہ جس طرح چاہتا ہے اس کو الٹتا پلٹتا ہے۔
قرآن مجید کتاب ہدایت ہے، اس نے بدوؤں کے قصہ کو اس لیے پیش کیا تاکہ قیامت تک امت سبق حاصل کرتی رہے، جس کو بھی ایمان مل جائے، خیر کی توفیق حاصل ہوجائے، وہ اس حقیقت کو نہ بھولے کہ یہ سب کچھ فضل الٰہی ہے، ہم کچھ بھی کرتے ہیں ، اللہ کے حکم سے کرتے ہیں ، اس کے نتائج اللہ کے حکم سے سامنے آتے ہیں ، کسی کو اپنے عمل پر ناز نہ ہو، وہ اللہ کا شکر گذار ہو اور سرنیاز خم کردے۔
آخری بات
سورۂ شریفہ کی آخری آیت میں بات صاف کردی گئی ہے کہ ایک آدمی جتنا بھی جتلائے اور اپنے اسلام کا دعویٰ کرے، اچھے اعمال کا تذکرہ کرے لیکن اللہ حقیقت حال سے خوب واقف ہے، کسی کے کہنے سے اور باور کرانے سے کچھ نہیں ہوگا جب تک حقیقت نہ ہو، صورت وحقیقت کا فرق سب جانتے ہیں ، تنہا صورت و شکل بنا لینا اور مظاہر اختیار کرلینا کافی نہیں ہے جب تک حقیقت کی روح نہ پیدا کی جائے۔
اس آیت کا اس سے پہلے کی آیتوں سے تو بہت واضح ربط ہے ہی بلکہ واقعہ یہ ہے کہ یہ پوری سورہ کی جان ہے، شروع سے لے کر اب جتنے احکامات دیے گئے ان سب کے اندر حقیقت پیدا کرنے کی اس میں تلقین کی جارہی ہے، اور یہ اسلام کی بڑی خصوصیت وامتیاز ہے کہ اس نے صورت کو حقیقت کے ساتھ جوڑا ہے اور اس میں جان پیدا کی ہے، اس سے عمل کے اندر وہ طاقت پیدا ہوجاتی ہے اور ایسے نتائج