اس کو باقی رکھتا۔(۱)
ان کی محبت وعظمت کا حال یہ تھا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے چشم وابرو کے وہ منتظر رہتے، ارشاد ہوتے ہی پہلے مرحلہ میں عمل شروع فرمادیتے، کبھی کبھی اس کی تفصیل ووضاحت بعدمیں ہوتی، اس کی مثال اوپر آچکی ہے،کچھ اسی طرح کا واقعہ حضرت عبداﷲ بن مسعود کے ساتھ پیش آیا، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے، وہ مسجدنبوی کے دروازے تک پہونچے تھے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ تمام لوگ بیٹھ جائیں ،وہ وہیں بیٹھ گئے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اندرآجائو انھوں نے فرمایا کہ آپ کے ارشاد کے بعد اس کی گنجائش ہی کہاں تھی کہ ام عبد کا بیٹا کھڑا رہتا۔(۲)
نقل واتباع کے مزاج کی بہترین تصویر صحابہ کی زندگی تھی، انھوں نے پوری طرح سے اپنے رخ کواس ایک ذات کی طرف کردیاتھا جس سے بہتر کسی کی زندگی لائق اتباع نہیں ہوسکتی تھی،انھوں نے ساری محبت وعظمت کا محوراسی ذات کو قرار دیا تھا جس نے ان کونئی زندگی بخشی تھی، اس کے آگے اب کسی محبت وعظمت کی کوئی حیثیت نہیں تھی اورتھی تواسی کے واسطے سے تھی، اس ذات کے اشارہ کے آگے جانیں قربان تھیں ۔
عظمت و اطاعت کی بنیاد
اس قدسی جماعت کے درمیان ایک تعداد ان بدوئوں کی بھی تھی جواسلام تولے آئے تھے لیکن ان میں بعضوں کا حال وہ تھا جوسورۃ الحجرات کے اخیر میں بیان کیاگیاہے:
{قَالَتِ الأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا
------------------------------
(۱) ابواداؤد، باب فی الحمرۃ /۴۰۶۸، صحیح مسلم، باب النھی عن لبس الرجل الثوب المعصفر/۵۵۵۷، مصنف ابن ابی شیبہ و ابن ماجہ، باب کراھیۃ المعصفر للرجال/۳۷۳۴ (۲) مستدرک حاکم ، کتاب الجمعہ/۱۰۴۸