دنیا میں قیامت سے پہلے قیامت کا منظر نگاہوں کے سامنے ہے، ہر شخص کو صرف اپنی فکر لگی ہے، اپنے تھوڑے سے فائدہ کے لیے وہ سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہے، اس خودغرضی کی خاصیت بے برکتی ہے، اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ افراد افراد کے ساتھ، جماعتیں جماعتوں کے ساتھ اور ملک ملکوں کے ساتھ برسرپیکار ہیں ، عدل و انصاف کے پیمانے بدل گئے ہیں ، اصول واخلاق کا توازن بگڑ گیا ہے۔
اصلاح کی دعوت
اسلام نے صرف صلاح ہی نہیں بلکہ اصلاح کی بھی دعوت دی ہے، سیلاب آتا ہے تو کوئی اپنے گھر کے دروازے بند کرکے محفوظ نہیں رہ سکتا، تیز موجیں اس کا خاتمہ کرکے دم لیں گی، اس کا طریقہ صرف یہ ہے کہ سیلاب کو روکنے کی کوشش کی جائے اور اس کے لیے اپنی جان کی بازی لگادی جائے۔
موجودہ عالمی نظام کا سب سے بڑا نعرہ آزادی کا ہے، کوئی کچھ بھی کرے کسی کو اس وقت تک روکنے کا حق نہیں جب تک وہ دوسرے سے تعرض نہیں کرتا اور اس قانون میں بھی ایسا کھوکھلا پن ہے کہ ملک ملک کو ہڑپ کرجاتے ہیں ، کسی کے منھ میں زبان نہیں جو بولے ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کا اندھا نظام اپنی ترقی یافتہ شکل میں پوری طرح موجود ہے۔
اسلام نے اپنے ماننے والوں کو اس کا مکلف کیا ہے کہ وہ صلاح کے ساتھ اصلاح کے عمل کو جاری رکھیں ، آپس کے جھگڑوں کو دور کریں ، نزاعات کا تصفیہ کریں ، تاکہ اللہ کی بخشی ہوئی صلاحیتیں صحیح مثبت اور تعمیری کاموں میں صرف ہوں ، خاص طور پر اگر ایمان والوں میں نزاعی شکلیں پیدا ہوجائیں تو اصلاح کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔