مصلحت یہی تھی، تاکہ عربوں کے ذہن سے نسلی تفاخر کا بیج نکل جائے، حجۃالوداع کے موقع پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کو خطاب کرکے فرمایا تھا: ’’إن اﷲ قد أذھب عنکم عبیۃ الجاھلیۃ و فخرھا بالآباء، مؤمن تقی وفاجر شقی، أنتم بنو آدم وآدم من تراب۔‘‘(۱) (اللہ تعالیٰ نے جاہلی نخوت اور باپ دادا پر فخر و غرور کو تم سے دور کردیا، اب یا تو پرہیزگار مومن ہے یا بدبخت فاسق وفاجر، تم سب آدم کی اولاد ہو، اور آدم مٹی سے بنے تھے)۔
اولاد آدم کو باربار یہ بتانے کی ضرورت اس لیے پڑ رہی ہے کہ اس نے اسی حقیقت کو فراموش کردیا کہ وہ سب ایک باپ کی اولاد ہیں ، ان سب کی اصل ایک ہی ہے، وہ اس بنیاد پر کس طرح اظہار فخر کرسکتے ہیں ، جبکہ آدم کو مٹی سے بنایا گیا، بلال حبشیؓ، زید بن حارثہؓ، صہیب رومیؓ، سلمان فارسیؓ، سب اسی وحدت انسانی کی یادگار ہیں ، جو انسانیت کے لیے اسلام کا بہت بڑا عطیہ ہے، اسلام نے ان غلاموں اور دورافتادہ کم حیثیت لوگوں کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا، رحمۃ للعالمین صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو کس طرح آغوش محبت میں لیاکہ قریش کے بڑے بڑے سرداروں کے لیے یہ حضرات باعث فخر بن گئے، حضرت عمر فاروقؓ ایک حبشی غلام کو سیدنا بلال کہہ کر کیوں خطاب کہہ رہے ہیں ، یہ صرف اسلام کا تحفہ ہے، اس نے عزت کے پیمانے بدل دیئے، جو کمزور سمجھے جاتے تھے وہ سردار قرار پائے، جو عزت و ناموری میں ممتاز تھے، ان میں کتنوں کے نام و نشان مٹ گئے۔
جاہلیت نئے قالب میں
اس نبی امی صلی اﷲ علیہ وسلم کے ماننے والوں میں آج دوبارہ وہ جاہلیت لوٹ کر آرہی ہے، جو اہل دین سمجھے جاتے ہیں ان کے یہاں یہ بات پیدا ہورہی ہے،
------------------------------
(۱) ابوداؤد، کتاب الادب،باب فی التفاخر بالاحساب/۵۱۱، ترمذی/۴۳۳۶ـ۴۳۳۷