مؤمنا ویصبح کافرا یبیع دینہ بعرض من الدنیا‘‘ (آدمی صبح مسلمان ہوگا اور شام کو کافر، شام کو مسلمان ہوگا صبح کو کافر، وہ اپنے دین کو دنیا کے چند ٹکوں کی خاطر بیچ دے گا)۔
آج یہ چیز حقیقت بن کر سامنے آرہی ہے۔
ایمان کی کسوٹی
ایمان جب تک اللہ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم پر مضبوط نہ ہوگا، اور اسباب دنیا ہی میں آدمی پڑا رہے گا، اس وقت تک شکوک و شبہات کا ازالہ بہت مشکل ہے، اور اس کی کسوٹی یہی ہے کہ اللہ کے راستہ میں جان و مال کی قربانی کی جب بھی ضرورت پیش آئے وہ ہمہ وقت تیار رہے، ’’جَاھَدُوْا بِأَمْوَالِھِمْ وَأَنْفُسِھِمْ فِیْ سِبِیْلِ اﷲِ‘‘کا یہی مطلب ہے، ایمان مضبوط ہو اور قربانی دینا آسان ہوجائے تو یہ ’’صدق‘‘ کی علامت ہے اور ان ہی لوگوں کو ’’صادقین‘‘ کہا گیا ہے، صدق سچائی کو کہتے ہیں ، یہاں صرف زبان کی سچائی کافی نہیں بلکہ قول و عمل دونوں کی سچائی مراد ہے، قول میں بھی سچائی ہو، عمل میں بھی سچائی ہو اور نیت میں بھی سچائی ہو، صادقین ان لوگوں کو یہاں اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ صرف زبان سے مسلمان نہیں ہوتے بلکہ ان کا دل بھی اس کی گواہی دیتا ہے اور وہ دل سے اس کو تسلیم کرتے ہیں ، ان کی زبان دل کی صحیح ترجمان ہوتی ہے، وہ اس میں نہ کچھ ہیرپھیر رکھتے ہیں اور نہ ہیرپھیر کرتے ہیں ۔
k