عَلیٰ مَا فَعَلُوْا وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ۔}(۱) (اور اپنے رب کی بخشش کی طرف اور ایسی جنت کی طرف لپکو، جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، جو پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے، جو خوشحالی اور تنگی میں خرچ کرتے رہتے ہیں ، اور جو غصہ کو پی جانے والے اور لوگوں سے درگذر کرنے والے ہیں ، اور اللہ بہتر کام کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے، اور وہ لوگ جو کھلی برائی کرجاتے ہیں ، یا اپنی جانوں کے ساتھ ناانصافی کرگزرتے ہیں تو اللہ کو یاد کرتے ہیں ، سو اپنے گناہوں کی معافی چاہتے ہیں ، اور کون ہے جو اللہ کے سوا گناہوں کو معاف کرے، اور اپنے کیے پر وہ اصرار نہیں کرتے جبکہ وہ خوب جانتے ہیں )۔
صبر
دشمنوں کی ایذاء رسانی پر صبر کرنے والوں کو بھی اہل تقویٰ شمار کیا گیا ہے: {لَتُبْلَوُنَّ فِیٓ أَمْوَالِکُمْ وَأَنْفُسِکُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ أُوْتُوْا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ أَشْرَکُوْآ أَذیً کَثِیْراً وَّإِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا فَإِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الا ُٔ مُوْرِ۔}(۲) (تمہیں ضرور اپنے مالوں اور جانوں میں آزمایا جائے گا، اور جن لوگوں کو تم سے پہلے کتاب ملی ان سے اور مشرکوں سے تم ضرور بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے اور اگر تم صبر کرو گے اور تقویٰ اختیار کرو گے تو یہ بڑی ہمت کے کام ہیں )۔
خیر کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرنے اوربرائیوں میں اس سے بچنے کا تذکرہ تقویٰ ہی کے ساتھ کیا گیا ہے: {وَتَعَاوَنُوْا عَلیٰ الْبِرِّ وَالتَّقْوَی وَلاَ تَعَاوَنُوْا عَلیٰ الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوْا اﷲ َ إِنَّ اﷲ َ شَدِیْدُ الْعِقَابِ}(۳) (نیکی اور تقویٰ پر ایک دوسرے کی مدد کرتے رہو اور گناہ اور ظلم کی باتوں پر ایک دوسرے کی مدد مت کرنا اور اللہ سے ڈرتے رہو، بلاشبہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے)۔
------------------------------
(۱) سورۂ آل عمران/۱۳۳ـ۱۳۵ (۲) سورۂ آل عمران/۱۶۸ (۳) سورۂ مائدہ/۲