مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں )۔ (۱)
تیسرا اہم ترین حق آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ’’اطاعت‘‘ کا ہے، یہ حق عقیدۂ رسالت کا اہم ترین جزء ہے، جو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو واجب الطاعۃ نہ سمجھے وہ ایمان سے خارج ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’أَطِیْعُوْا اﷲ َ وَأَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ‘‘ (اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی) رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی رائے کو اپنی خواہشوں ، رغبتوں کے مطابق کرنا غیرایمانی فعل ہے، سورۂ حجرات کی اس آیت میں ارشاد ہوتا ہے:
{وَاعْلَمُوْآ أَنَّ فِیْکُمْ رَسُوْلُ اﷲِ لَوْ یُطِیْعُکُمْ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنَ الأَمْرِ لَعَنِتُّمْ}(۲)
’’اور جان رکھو کہ اللہ کے رسول تم میں موجود ہیں ، اگر وہ اکثر چیزوں میں تمہاری بات مانیں گے تو تم مشکل میں پڑ جاؤ گے۔‘‘
عظمت واطاعت
عظمت رسالت سے متعلق شروع میں جو بات عرض کی جاچکی ہے، وہ بات ایمان کی ہے، حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں کون ایمان والا اس سے واقف نہیں کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم بنفس نفیس تشریف فرما ہیں لیکن جذبۂ اطاعت کو ابھارنے کے لیے یہ تعبیر اختیار کی جارہی ہے تاکہ عظمت رسالت دل میں بیٹھ جائے اور اطاعت کا جذبہ پیدا ہوجائے، اللہ کی طرف سے یہ احسان جتلایا جارہا ہے کہ تمہیں یہ خصوصیت حاصل ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم تم میں موجود ہیں ، تم براہ راست
------------------------------
(۱) صحیح بخاری، کتاب الایمان ، باب حب الرسول من الایمان/۱۵، صحیح مسلم/۴۴
(۲) سورۂ حجرات/۷