میں اس کی گرفت ہوگی، تاہم اچھا گمان رکھنے کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ بغیرتحقیق کے اس سے معاملات شروع کردے۔
تحقیق کی ضرورت
اگراچھے گمان کے نتیجہ میں اس سے معاملہ کیا اوروہ فی نفسہٖ اچھا انسان نہ ہوا تومعاملہ کرنے والا دھوکہ کھاسکتاہے، دھوکہ دینا توبدترین گناہ ہے ہی دھوکہ کھانا بھی فراست ایمانی کے منافی ہے، حدیث میں آتا ہے ’’لا یلدغ المؤمن من جحر واحد مرتین‘‘(۱) (مومن ایک سوراخ سے دومرتبہ نہیں ڈسا جاسکتا) اگرایک مرتبہ دھوکہ ہوبھی جائے تودوسری مرتبہ وہ دھوکہ نہیں کھاتا، اسی طرح اگرکسی سے دینی مسائل میں استفادہ کرنا ہے توبھی بہتریہی ہے کہ اس کے بارے میں اچھی طرح سے معلومات حاصل کرلی جائیں اوراچھی طرح پرکھ لیاجائے، قرون اولیٰ میں یہ مقولہ لوگوں کی زبان پر تھا: ’’إن ہذا العلم دین فانظروا عمن تأخذون دینکم۔‘‘(۲) (یہ علم دین ہے تواچھی طرح دیکھ لوکہ تم دین کس سے حاصل کررہے ہو۔)
کسی سے اگرمعاملہ کرنا ہو، وہ معاملہ دنیوی ہو یا دینی اس سے فوراً خوش اعتقاد ہوجانا اوربغیرتحقیق کے اچھا گمان کرکے معاملہ کرلینا بھی دینی مزاج کے خلاف ہے اوربعض مرتبہ اس کے بڑے نقصانات اٹھانے پڑتے ہیں ، اس لیے سب سے بہتر شکل یہ ہے کہ عام طورپرلوگوں کے ساتھ اچھا گمان رکھاجائے لیکن اگرکسی قسم کا لین دین کرنا ہویادین حاصل کرنا ہوتو جب تک اچھی طرح تحقیق نہ کرلی جاے اس وقت تک معاملہ نہ کیا جائے اورنہ ہی کسی دوسرے کے سامنے اس کی گواہی دی جائے تاکہ کوئی دوسرا بھی دھوکہ میں نہ پڑے، کسی نے حضرت عمرؓ کے سامنے کسی کی تعریف کی
------------------------------
(۱) صحیح بخاری، باب لا یلدغ المؤمن من جحر/۶۱۳۳، مسلم، باب لا یلدغ المؤمن من جحر مرتین/۷۶۹۰ (۲) صحیح مسلم،باب فی أن الاسناد من الدین/۲۶