زندگی کا مزہ
آگے بطور خاص اس چیز کا ذکرکیا جارہا ہے جس کی تمہید کے طورپر {إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَۃٌ} کہا گیا ہے، ارشاد ہوتا ہے:
{فَأَصْلِحُوْا بَیْنَ أَخَوَیْکُمْ}
’’تواپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرادیا کرو۔‘‘
یہ پوری آیت درحقیقت گذشتہ آیت کا تتمہ ہے جس میں یہ حکم تھا کہ اگر دو مسلمان گروہوں میں تصادم ہوجائے توتمہیں صلح صفائی کرادینی چاہیے، یہاں اس کی تحریض کی جارہی ہے، اوراس کی وجہ بھی بیان ہورہی ہے کہ اگردوبھائیوں میں جھگڑا ہوجائے توبقیہ بھائیوں کورشتۂ محبت کی بنا پر اس کی فکر ہوتی ہے کہ دونوں کو ملادیا جائے تاکہ سب کو اس مصیبت سے نجات ملے اورزندگی کامزہ آئے، اسی طرح ایمانی رشتۂ اخوت میں بھی جوکسی طرح بھی خونی رشتہ سے کم نہیں بلکہ بعض وجوہات کی بنا پر اس سے بڑھ کر ہے، یہی فکرہونی چاہیے، اگردوایمان والوں میں یا دومسلمان گروہوں میں نزاع ہو توبقیہ ایمان والے بھائیوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ صلح صفائی کی فکر کریں تاکہ بہتر ماحول پیدا ہو،آپس کے تعلقات استوار رہیں اورجینے کا مزہ آئے، آیت کے اخیر میں فرمایا:
{وَاتَّقُوْا اللّٰہَ لَعَکُّمْ تُرْحَمُوْنَ۔}(۱)
’’ اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحمت ہو۔‘‘
اس میں خطاب صرف صلح کرانے والوں کوہی نہیں ہے بلکہ دونوں جھگڑنے والے فریق بھی اس میں شامل ہیں ، اورتمام مسلمانوں کے لیے ایک عمومی حکم بھی ہے،تقوی کی زندگی اختیارکرنے سے مومن اللہ کی رحمت خاص کا مستحق بنتا ہے، عام
------------------------------
(۱) سورۂ حجرات/۱۲