الصَّادِقُوْنَ۔}(۱)
’’ایمان والے تو وہ لوگ ہیں جنھوں نے اللہ اور اس کے رسول پر یقین کیا پھر وہ شک میں نہیں پڑے اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے انھوں نے اللہ کے راستہ میں جہاد کیا، سچے لوگ تو وہی ہیں ۔‘‘
یقین کی ضرورت
اوپروالی آیت میں گزر چکا ہے کہ بنواسد کے بدو اپنے ایمان کے دعویٰ کے ساتھ آئے تھے، ان سے کہہ دیا تھا کہ ابھی تم ایمان والے نہیں ہو، مذکورہ آیت میں ایمان کی تشریح کی جارہی ہے، اور یہیں سے ان بدو قبائل کے سامنے یہ وضاحت بھی ہورہی ہے کہ اگر تم ایمان چاہتے ہو تو اس کی پہلی شرط یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول پر پورا یقین ہو، اس میں شبہ نہ ہو، اور اس کی بڑی علامت یہ ہے کہ جان و مال کی قربانی دشوار نہ رہ جائے۔
یہ بات ہر ایک آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ اگر کوئی بڑی منفعت پیش نظر ہو تو انسان کے لیے دشواریاں آسان ہوجاتی ہیں ، فائدہ کا جتنا زیادہ یقین ہوجاتا ہے اس کے بقدر اس کی راہ کی مشکلات آسان ہوتی ہیں ، یہی حال ایمان کا ہے، اللہ اور اس کے رسول پر ایمان جتنا زیادہ طاقتور ہوتا ہے، اس کے بہترین نتائج کا یقین بڑھتا جاتا ہے، پھر آدمی کا حال یہ ہوجاتا ہے کہ اس راہ میں اپنی جان کی بھی کوئی قیمت نہیں رہ جاتی ؎
جان کی قیمت دیار عشق میں ہے کوئے دوست
اس نوید جانفزا سے سر وبالِ دوش ہے
------------------------------
(۱) سورۂ حجرات/۱۸