وہ چیز موجود ہی نہیں ہے توتم نے اس پرتہمت لگائی (جوغیبت سے بڑا گناہ ہے)۔
عام طورپر لوگ اس غلط فہمی کا شکار رہتے ہیں کہ اگرکسی ایسی برائی کوبیان کیا جائے جوموجود ہے تویہ غیبت نہیں ہے، اس حدیث میں بات صاف کردی گئی کہ غیبت توجب ہی ہے کہ برائی موجود ہو، اوراگربرائی موجود نہیں ہے تب تویہ بہتان طرازی اورالزام تراشی ہے جوبدترین گناہوں میں سے ہے۔
غیبت کے اسباب
عام طورپر سوئِ مزاج کے نتیجہ میں آدمی غیبت میں مبتلا ہوتا ہے، بعض لوگ توصرف ناعاقبت اندیشی کی بنا پر یہ کام کرتے ہیں ، ان کو یہ خیال ہی نہیں رہتا کہ دنیا وآخرت میں اس کے نقصانات کیا ہیں ، ایک بڑی تعداد انانیت پسند لوگوں کی بھی ہوتی ہے جوکسی کواٹھتا ہوا نہیں دیکھ سکتے، ان کے سامنے اگرکسی کی تعریف کی جانے لگے توفوراً وہ برائیاں تلاش کرکے بیان کرنے لگتے ہیں ، جب کہ اسلامی مزاج کا تقاضا یہ تھا کہ دس برائیوں میں اگرایک نیکی بھی ہے تونیکی کا چرچا کیاجائے اوربرائیوں کا تذکرہ نہ ہو، تاہم یہ بھی خیال رہے کہ اگرکہیں گواہی دینے کا مسئلہ ہے یاکوئی کسی کے بارے میں مشورہ کررہا ہے تواپنے علم کے مطابق صحیح رائے کا اظہارضروری ہے، ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کے لیے دو لوگوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے پوری وضاحت فرمادی اور جو نقص تھا وہ بھی بیان کردیا تاکہ آدمی دھوکہ میں نہ پڑے اوربعدمیں اس کو پچھتاوانہ اٹھانا پڑے، محدثین کے یہاں جرح وتعدیل کا مستقل فن اسی لیے وجود میں آیا کہ غلط لوگوں سے روایات نقل کرنے میں احتیاط برتی جائے اوربے اصل روایات معاشرہ میں پھیل نہ جائیں ، یہ ایک دینی شرعی مصلحت وضرورت تھی اوراب بھی اگرضرورت پڑے توبالکل دوٹوک